علی ابن ابی طالب، یا سیدنا علی، (۶۰۱ تا ۶۶۱ عیسوی) مشرف با اسلام ہونے والی اولین شخصیات (”السابقون الاولون“) میں سے ہیں، جو اسلامی پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی اور داماد تھے، اور انہوں بعد ازاں ۶۵۶ تا ۶۶۱ عیسوی تک بطور چوتھے خلیفۃ اسلام کے طور پر عنان حکومت بھی سنبھالی اور وہ مزید اس عہدے پر فائز رہتے گر ان کی شہادت نہ ہوتی۔ ان کے دور کا زیادہ تر حصہ اسلامی سلطنت کی پہلی خانہ جنگی یا پہلا فتنہ (۶۵۶ تا ۶۶۱ عیسوی) کے دوران میں سلطنت کو ترتیب دینے میں صرف ہوا۔ اسلامی مملکت اور امت کا ایک دھڑا، جسے شیعہ مسلمانوں کے نام سے جانا جاتا ہے، سیدنا علی المرتضی کو نبی علیہ السلام کا روحانی وارث قرار دیتے ہیں، اور اپنے روحانی پیشواوں یا اماموں کے ایک سلسلے میں انہیں اولین متصور کرتے ہیں۔ سنی مسلمان، جو کہ اسلامی معاشرے کا ایک اور جماعت ہے، انہیں خصوصی تعظیم کے ساتھ ایک اعلی مقام پر فائز قرار دیتے ہیں لیکن ان کے تین پیش رووں، ابوبکر (دور حکومت ۶۳۲ تا ۶۳۴عیسوی)، عمر (دور حکومت ۶۳۴ تا ۶۴۴عیسوی) اور عثمان (دور حکومت ۶۴۴ تا ۶۵۶عیسوی) کو ابتدا میں قائم ہونے والی مسلمان سماجج کے سربراہ مانتے ہیں اور چاروں کو خلفائے راشدین کی اصطلاح سے مجموعی طور پر تعبیر کرتے ہیں۔
ابتدائی زندگی اور قبول اسلام
سیدنا علی المرتضی مدینے میں تحریک اسلام کے علمبردار بن کر سامنے آئے اور مدینۃ الرسول اللہ میں انہوں نے نبی علیہ السلام کے نائب اور سفیر کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں اور وہ نبی علیہ السلام کے سب سے مستند اور معتبر اصحاب میں شمار ہو گئے
سیدنا علی المرتضی کی پیدائش ۶۰۱ عیسوی میں بعض روایات کے مطابق مکہ میں مسجد حرام (کعبۃ اللہ) کے در و دیوار کے مابین ہوئی۔ . وہ بنو ہاشم قبیلہ کے رہنما ابو طالب ابن عبد المطلب (۵۳۵ تا ۶۱۹عیسوی) کے بیٹے تھے، جو اسلامی پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے۔ ان کے والد نے عالم طفولیت میں ہی یتیمی کی چادر اوڑھ لینے والے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش اپنے بیٹے کی حیثییت سے ہی کی تھی اور اسی طریق کا ایک رشتہ نبی علیہ السلام اور سیدنا علی المرتضی کے مابین پیدا ہوا۔ بچپن سے ہی، سیدنا علی المرضی نے نبی علیہ السلام، جنہوں نے انہیں اپنے گھر میں اپنے زیر تربیت رکھا، کے ساتھ ایک مضبوط رشتہ قائم کر لیا تھا. ۶۱۰ عیسوی میں، جب نبی علیہ السلام نے اپنی نبوت کا اعلان کیا، تو سیدنا علی المرضی ببانگ دہل ان پر ایمان لے آئے اور اسلام کے نام سے پھیلنے والے اس نئے عقیدے کو قبول کرنے والے اولین لوگوں میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ (اس معاملے میں اختلاف ہے کہ سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے مرد کون ہیں لیکن سیدنا علی ان امیدواروں میں شمار ہوتے ہیں، اور وہ پر آشوب زمانے اور دور صعبوتوں میں بھی نبی علیہ السلام کے شانہ بشانہ کھڑے رہے)
سیدنا علی کے والد کا انتقال ۶۱۹ عیسوی میں ہوا۔ ان کے انتقال نے سیدنا علی کی زندگی میں جو پدرانہ شفقت کا خلا چھوڑا اسے نبی علیہ السلام نے پورا کیا۔ نبی علیہ السلام بھی اسی سال اپنی عزیز زوجہ ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری کی رحلت سے افسرہ اور مایوس تھے۔ اس سال کو اسلامی روایات کے مطابق ‘‘عام الحزن‘‘ (غم کا سال) کہا جاتا ہے۔ مکہ والوں کے ہاتھوں پرتشدد جبر کا سامنا کرنے پر، مسلمانوں نے ۶۲۲ عیسوی میں مدینہ کی جانب ہجرت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ کے کچھ وقت بعد اپنے سب سے قریبی دوست اور رفیق سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ مدینہ میں پناہ حاصل کرنے کے لیے اور اسے اپنا مسکن بنانے کی غرض سے اور اسے اپنی سکونت کے شرف سے بخشنے کے لیے نبی علیہ السلام کی مکہ سے روانگی کے موقع پر، سیدنا علی رضی اللہ عنہ لوگوں کو وہ مال واپس کرنے کے لیے پیچھے مکہ میں ہی رہے جو عوام الناس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حفاظت کے لیے سونپا تھا۔
سیدنا علی المرتضی مدینے میں تحریک اسلام کے علمبردار بن کر سامنے آئے اور مدینۃ الرسول اللہ میں انہوں نے نبی علیہ السلام کے نائب اور سفیر کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں اور وہ نبی علیہ السلام کے سب سے مستند اور معتبر اصحاب میں شمار ہو گئے۔ سیدنا علی اپنی فقید المثال اور نے نظیر حکمت کی وجہ سے بہت زیادہ مشہور و معروف تھے، ان کی حکمت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہیں نبی علیہ السلام نے ’’باب العلم‘‘ (علم کا دروازہ) کا لقب نوازا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے پھوٹنے والے فیض اور علم کے چشمے سے سیراب ہو کر امام المتقین سیدنا علی المرتضی مذہب سے متعلق اکثر پیچیدگیوں اور معموں کو حل کرنے والی وہ شخصیت بن گئیں جن کی جانب اس وقت کا پورا عالم اسلام رجوع کرتا۔
علم و حکمت کے آفتاب بن کر تمام عالم کو منور کرنے کے علاوہ سیدنا علی بہادری و شجاعت کا وہ پیکر تھے کہ جن کے نام سے دشمن کانپتا تھا۔ کفر و اسلام کے معرکوں میں انہوں نے بسالت اور دلیری کے وہ کارنامے انجام دیے کہ جن کی مثال آج تک نہیں ملتی اور جن کو صفحہ قرطاس پر بیان کرنے کے موجود الفاظ مارے ندامت سر جھکا لیں اور پانی پانی ہو جائیں اور یہی وہ کارنامے ہیں جو سیدالصادقین سیدنا علی المرتضی کی شخصیت کو مزید پروقار اور عظمت ناک بناتی ہیں۔ اس کی بہادری، سورما پن، تہوُّر، جواں مردی اور غیرمتزلزل ہمت نے ان پر ‘‘اسد اللہ‘‘ شیر خدا کا لقب تفویض کیا۔ اشجع الاشجعیں سیدنا علی نے ابتدائی اسلامی تاریخ کی تقریباً ہر بڑی جنگ میں اپنی فوج کے معیاری علمبردار کے طور پر حصہ لیا۔ جنگ بدر (۶۲۴ عیسوی میں ہونے والی اہل مکہ کے خلاف پہلی جنگ تھی) کے موقع پر، روایت ہے کہ انہوں نے ایک ہی ہاتھ سے متعدد مخالفین کو واصل جہنم کیا۔ ایک سال بعد 625 عیسوی میں ہونی والی جنگ احد میں، جہاں مسلمانوں کو اپنی چند ایک کوتاہیوں کی بنا پر عبرت ناک پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ، سیدنا علی نبی علیہ السلام، جو زخمی اور کمزور تھے، کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے اور اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر اپنے ناصح کے محافظ ہونے کی سعادت حاصل کی۔ یہ ان بیش بہا اور ان گنت روایات میں سے چند ایک ہیں جو کہ سیدنا علی المرتضی کی بہادری، آہنیں جگری، اسلام کی خاطر ان کی اولو العزمی اور جنگ و حرب میں ان کی قابلیت، ہنر مندی، ذکاوت اور لیاقت پر صاد ہیں۔
خلافت
۶۳۲ عیسوی میں سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری وصال کے بعد امت مسلمہ کی ذمہ داری نبی علیہ السلام کے سب سے قریبی ساتھی اور رفیق غار ثور سیدنا ابوبکر صدیق (دور خلافت ۶۳۲ تا ۶۳۴ عیسوی) نے اپنے شانوں پر لے لی۔ لیکن بعض کے نزدیک، نبی علیہ السلام کے حقیقی وارث سیدنا علی المرتضی تھے۔ اس عقیدے کا مالک فرقہ شیعہ مسلمین (اہل تشیع) کے نام سے جانا گیا اور ان کی اس دلیل کی بنیاد اس واقعہ پر کھڑی ہے جسے غدیر خم کہا جاتا ہے۔ اس واقعہ کی روداد یہ ہے کہ رسول اللہ صلہ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے وصال سے قبل اظہار کیا تھا کہ جو کوئی انہیں اپنا مولا تسلیم کرتا ہے، وہ سیدنا علی کے بارے میں بھی ایسا ہی خیال رکھے۔ تاہم، لفظ مولا معنی کے حوالے سے کئی جہات کا حامل ہے۔ مختلف لغات میں اس کے معنی ایک دوست سے لے کر ایک راہنما تک ملتے ہیں۔ اس فطری ابہام اور اغلاق نے ایک اور گروہ کی تشکیل کا کام کیا، جسے ہم سنی مسلمین (اہل تسنن) کے نام سے جانتے ہیں، جو بہ وثوق سے دعوی کرتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے واضحتاََ اور صریحتاََ کوئی وارث نہیں چھوڑا تھا، اور اس بنا پر انہوں نے اپنی حمایت کا اعلان سیدنا صدیق اکبر کے حق میں کیا
سیدنا ابوبکر صدیق نے اپنی حاکمیت کی بالادستی کی بنا پر جزیرہ نما عرب پر اپنا اختیار مزید مضبوط کر لیا (حروب الردا؛ ۶۳۲ تا ۶۳۳ عیسوی) اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے شام اور عراق میں کامیابی سے لشکر کشی کی لیکن مزید کامیابیاں سمیٹنے سے قبل قدرتی وجوہات کی بنا پر ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ ان کی وفات کے بعد، ان کے سب سے بڑے حامی، سیدنا عمر بن الخطاب (دور خلافت ۶۳۴ تا ۶۴۴ عیسوی) جو کہ شفیع امت نبی علیہ السلام کے ایک اور جاہ و حشمت سے لبریز صحابی تھے اور اپنی شخصیت کے منضبط اور منظم پہلو کی بنا پر جانے جاتے تھے، نے بطور خلیفۃ الرسول اللہ اپنے فرائض انجام دینا شروع کر دیے۔ سیدنا علی المرتضی نے ان کی شوری میں کلیدی کردار ادا کیا اور سیدنا عمر فاروق سے منسوب و متعلق کثیر التعداد مشہور و معروف اصلاحات (یعنی ترقیاتی منصوبوں، امن و امان وغیرہ) کو ترتیب دینے کا سہرا سیدنا علی المرتضی کے سر بھی جاتا ہے۔ سیدنا فاروق اعظم نے خلافت کی باگ ڈور کو ایک عظیم طریق پر قریباََ ایک دہائی تک سنبھالا اور بعد ازاں انہوں نے ۶۴۴ عیسوی میں جام شہادت نوش کیا
ان کے بعد، امام مظلوم مدینہ منورہ سیدنا عثمان بن عفان (دور خلافت ۶۴۴ تا ۶۵۶ عیسوی)، جو کہ مکہ کے متمول افراد میں سے اپنے دامن کو اسلام کے نور سے منور کرنے والے اولین شخص تھے، سریر آرائے خلافت ہوئے۔ ذوالہجرتین سیدنا عثمان غنی نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے پر محیط دورانیے کے لیے بطور خلیفہ اپنے فرائض سے عہدہ برآ ہوئے لیکن انتظامی معاملات میں انہوں نے بہت زیادہ حد تک بنو امیہ کے اعزّہ و اقارب پر انحصار کیا اور بالآخر انہیں ایک خشم ناک باغیوں کے گروہ سے سر کشی اور بغاوت کا سامنا کرنا پڑا اور ۶۵۶ عیسوی میں انہیں انہی باغی سرکشوں کے ہاتھوں داعی اجل کو لبیک کہنا پڑا۔ یہ وہ وقت تھا جب اپنے رئیس قبیلہ کے ظاہری وصال کے دو دہائیوں کے بعد سیدنا علی بن ابی طالب (دور خلافت ۶۵۶ تا ۶۶۱ عیسوی) نے بطور خلیفہ چہارم عہدہ کو قبول کیا
شوریدگی فتنہ اول (۶۵۶ تا ۶۶۱ عیسوی)
منصب خلافت سنبھالتے ہی، سیدنا علی المرتضی نے امن اور نظم و نسق بحال کرنے کی کوششیںن شروع کر دیں اور اس سلسلے میں نہایت تن دہی اور جانفشانی سے کام کیا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے کئی صوبائی گورنروں اور عاملین کو برطرف کر دیا، جن میں سے کثیر تعداد ایسوں کی تھی جن کا دامن بدعنوانی کے داغ سے آلودہ تھا اور ان کی مقرری سیدنا عثمان غنی کے دور میں ہوئی(جو کہ اخیر وقت میں ان فاجر و فاسق عناصر پر اپنا رعب و دبدہ کھو چکے تھے)۔ ان میں سے کئی نئے خلیفہ کی طاقت کا لوہا مان چکے تھے اور ان کے احکامات پر سر تسلیم خم کر چکے تھے، ان میں کچھ ایسے بھی طوائف الملوک عناصر تھے جنہوں نے سیدنا علی المرتضی کے احکامات کو ماننے سے صاف انکار کر دیا۔ سیدنا عثمان غنی کے قتل نے امت مسلمہ کا شیراہ بکھیر دیا تھا، اور بنو امیہ سے تعلق رکھنے والے ان کے رشتہ داروں اور عمائدین و اکابرین، خاص طور پر شام کے گورنر معاویہ بن ابو سفیان (دور حیات ۶۰۲ تا ۶۸۰ عیسوی) نے سیدنا علی المرتضی اور ارباب اختیار سے انصاف کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے سیدنا عثمان کے حملہ آوروں اور قاتلین کے لیے عبرتناک سزا سے کم کسی چیز پر تصفیہ کرنے سے انکار کر دیا۔ مرحوم خلیفہ کی خون آلود قمیض اور ان کی اہلیہ (نائلہ:جنہوں نے سیدنا عثمان کی جان کی حفاظت کے دوران میں بہادری کی بے نظیر داستان رقم کی تھی) کی کٹی ہوئی انگلیوں کو جامعہ مسجد دمشق میں عوامی طور پر آویزاں کیا گیا تاکہ مقتول خلیفہ کے لیے عوام سے ہمددری حاصل کی جا سکے
یہی مطالبات ام المومنین سیدنا عائشہ صدیقہ (دور حیات ۶۱۴ تا ۶۸۰ عیسوی)، جو کہ نبی علیہ السلام کی ازدواج مطہرات میں سے ایک تھیں، کی جانب سے پیش کی گئی تھیں۔ سیدنا عائشہ کے علاوہ یہ مطالبات دیگر کئی دوسرے قابل ذکر مسلمان اصحاب رسول ﷺ جیسا کہ طلحہ بن عبید اللہ (۵۹۴ تا ۶۵۷ عیسوی) اور زبیر بن العوام (۵۹۴ تا ۶۵۶عیسوی)، نے پیش کیے تھے۔ یہ دونوں اصحاب ہی نبی علیہ السلام کے پسندیدہ ترین افراد میں شامل تھے اور انہیں عشرہ مبشرہ میں شامل ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ روایت ہے کہ کوفہ اور بصرہ کی گورنری کے عہدوں پر ان کی تقرر پر انکار کرنے کے بعد ان دونوں حضرات نے سیدنا علی المرتضی کی حمایت ترک کرنے کا اعلان کر دیا۔ دوسری جانب سیدنا عثمان غنی کے مقتولین، جو اب سیدنا علی کی حمایت و تائید کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور اس بات پر مصر رہے کہ سیدنا عثمان غنی کا قتل جائز تھا اور انصاف کے اصولوں کے مطابق تھا۔ جب کہ کاتب وحی اور ناشر قرآن سیدنا عثمان غنی کے حامیوں نے دعویٰ کیا کہ اس کا قتل ظلم و بربریت کے سوا کچھ بھی نہیں اور یہ تقاضا کہ قاتلین کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ یہ تند بحث و تکرار اور نظریاتی نزاع جلد ہی ایک ایسی خونی خانہ جنگی کی صورت اختیار کرنے والا تھا جس کے شعلے آج بھی بھڑک رہے ہیں اور جس نے عالم اسلام کو ایک ایسی آگ میں لپیٹ دیا جو کہ شاید طوفان نوح سے بھی نہ بجھ سکے۔ سیدنا عثمان غنی کے قتل کے معاملے میں سیدنا علی المرتضی کی انصاف فراہم کرنے میں واحد رکاوٹ اس وقت کے حالات تھے: وہ اپنے اقدامات کی بنا پر ایک اور بلوے اور شورش کو شہ نہیں دے سکتے تھے (اس وقت تو بالکل بھی نہیں جب یہ شر پسند, برگشتہ اور منحرف عناصر اپنے ولولے اور خشم آلود جذبے کے اوج ثریا پر مقیم تھے )اور طوائف الملوکی کی جانب مائل گروہ پہلے ہی سرگرم تھے۔ ان کے حامیان اور طرف دار انہیں اس پر خطر وادی میں تن تنہا چھوڑ دینے کی دھمکیاں دے رہے تھے اور ان کے مخالفین روز بروز اپنے بازو پھیلاتے جا رہے تھے اور ان کی تعداد صحرائے عرب کی تپتی دھوپ کی طرح بڑھ رہی تھی۔
جنگ جمل و صفین
عراق کے شہر بصرہ میں مخالف فریقین کا سامنا ہوا، دونوں اطراف کے ذکی و فہیم قائدین و زعما نے نے معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے باہمی مذاکرات اور صلح پر زور دیا جو جلد ہی بے سود ثابت ہوئے، اور جنگ کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ سیدنا علی المرتضٰی اپنے پیشرو سیدنا عثمان بن عفان (جنہوں نے اپنے خلاف پھوٹنے والے بغاوت کے فتنے کو فرو نہیں کیا تھا) کی طرح اپنے ہی ہاتھوں پر اپنے ہی مسلمان بھائیوں کا خون نہیں چاہتے تھے ۔ سیدنا علی المرتضی کے حکم پر ان کے حامیان نے سیدنا عائشہ رضی اللہ عنھا کو مقید و محبوس کر لیا۔ ان کی گرفتاری کے نتیجیے میں سیدنا عائشہ کی افواج نے لشکر کشی بند کر دی۔ سیدنا عائشہ صدیقہ کی قدر و منزلت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے انہیں تمام تر اعزاز و شان و شوکت کے ساتھ مدینہ واپس بھیج دیا گیا۔جنگ جمل (۶۵۶ عیسوی)، وہ پہلا ایسا المناک واقعہ تھا جب میدان جنگ کے دونوں طرف محمد کے پیروکار اور اسلام کا پرچم سر بلند کرنے والے صف آرا تھے۔
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکم عدولی اور انتظامی معاملات کے حوالے سے ان کی سرکشی کو فرو کرنے کے لیے عزم و حوصلہ میں فقید المثال اور نادر نمونہن سیدنا علی نے اپنی اتحادی فوج کو شام پر چڑھائی کرنے کے واسطے بڑھایا۔ دونوں افواج کی ۶۵۷ عیسوی میں صفین کے مقام پر مڈ بھیڑ ہوئی اور اگلے کوئی دنوں تک گھمسان کا رن پڑا۔ جنگ کے عروج پر سیدنا علی المرتضی کی افواج نے شامی افواج کے چھکے چھڑا دیے اور ان کو منتشر ہونے کے دہانے تک پہنچا دیا۔ یہی وہ اہم اور فیصلہ کن لمحہ تھا جب عمرو ابن العاص (۵۸۵ تا ۶۶۴عیسوی) نامی ایک موقع پرست، طوطا چشم اور ابن الوقت نے اپنی عیاری اور بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک چال چلی۔ عمرو بن العاص مصر کے سابق گورنر کے طور پر اپنے فرائض انجام دے چکے تھے اور انہیں سیدنا عثمان غنی نے بدعنوانی کے الزام میں معزول کر دیا تھا۔ نتیجتاََ عمرو بن العاص نے داماد رسول ﷺ سیدنا عثمان پر سب و شتم کیا اور انہیں رسوا و ذلی کرنے میں کوئی دقیقہ ور نہ چھوڑا۔ اور سیدنا عثمان کے خلاف بغاوت کو شہہ دینے میں کلیدی کردار ادا کرتا رہا یہاں تک کہ سیدنا عثمان کو بے دردی اور بے رحمی سے شہید کر دیا گیا۔ لیکن جب انہوں سیدنا امیر معاویہ کے خلیفۃ الثالث کے قاتلین سے بدلہ دینے کے ارادے کو سنا تو فوراََ خود کو سفاک اور جاں ستاں قاتلین کے گروہ سے کنارہ کش کر لیا اور ان سے بے تعلقی کا اعلان کر دیا۔ انہوں نے نہایت تیزی و تندی سے اطراف بدل لیں، اور جنگ کے حتمی موڑ اور مرحلے پر انہوں نے تجویز پیش کی کہ شامی افواج کے سپاہی پرامن حل کی تلاش اور تصفیہ کےاشارے کے طور پر قرآن کے صفحات کو اپنے نیزروں کی نوک پر لہرائیں۔ سیدنا علی المرتضی ابو تراب کی فطین شخصیت نے نہایت زیرکی اور ذکاوت سے اس چال میں پنہاں عیاری اور مکاری کو پھانپ لیا لیکن اس فعل نے ان کے لشکر کو جنگ جاری کرنے سے متنفر کر دیا اور انہوں نے سیدنا علی المرتضیٰ پر دباؤ ڈالا کہ وہ امن خواہی کا مظاہرہ کریں اور آشتی و صلح کی طرف رجوع کریں
تعطل کے بعد حضرت امیر معاویہ کی جنگی حوالے سے پوزیشن مستحکم ہو چکی تھی لیکن سیدنا علی کے لیے جنگی تعطل اور التوا کوئی خاصہ مفید ثابت نہ ہوا تھا۔ دونوں راہنماؤں اور سالاران دستگان کے درمیان ثالثی کی کوشش کی گئی جو کہ اس فیصلہ پر منتج ہوئی کہ خلافت کے منصب کے لیےی دونوں میں سے کوئی بھی موزوں نمائندہ نہیں ہے۔ امیر معاویہ کے لیے، یہ فیصلہ ایک شاندار فتح سے کم نہ تھا ، کیونکہ انہوں نے کبھی خلافت کے منصب کو سنبھالنے کے ارادوں اور نیت کا برملا اظہار نہیں کیا تھا، لیکن سید علی المرتضی جو کہ پہلے ہی اس منصب پر فائز تھے اور زمام حکومت انہی کے ہاتھوں میں تھی،ان کے لیے یہ فیصلہ نہایت گمبھیر ثابت ہوا۔ ۔ ثالثی کے دوران سیدنا عثمان کی بے گناہی ثابت ہو گئی لیکن اس کے باوجود، سیاسی عدم استحکام اور سماجی انتشار نے ابو الحسن حضرت علی کو سیدنا عثمان کے قاتلین کو تختہ دار تک نہ لانے دیا
ایک بنیاد پرست اور متشدد گروہ، جس نے ابتدائی طور پر پرامن قرارداد اور امن و آشتی کی بھرپور حمایت کی تھی، اور جس سے منسلک کچھ افراد سیدنا عثمان غنی کے سفاکانہ قتل میں ملوث تھے، نے اعلان کیا کہ "انصاف کی روش محض خدا تعالی کی ہے اور ثالثی کی صفت بھی اسی کی ہے۔ نیز یہ کہ فانی انسان اس کو عمل میں نہیں لا سکتا چونکہ وہ حاکمیت ربانی کے سامنے بے بس اور لاچار ہے‘‘ (اس سے یہ صاف طور پر ظاہر ہے کہ یہ متعصب گروہ دونوں فریقین، سیدنا امیر معاویہ اور سیدنا علی بن ابی طالب، دونوں کے خلاف زہر اگلتے تھے اور دونوں کے ہی خلاف تھے) اور ساتھ ہی ساتھ انہوں نے سیدنا علی المرتضی کی حمایت سے علیحدگی کا اظہار کر لیا اور کنارہ کشی اختیار کر لی۔ اس گروہ کو، بعد ازاں خوارج ('جن کا خروج ہو جاتا ہے') کی اصطلاح سے منسوب کیا گیا، اور انہوں نے سیدنا علی کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔ اسی اثنا میں امیر معاویہ مسلسل سیدنا علی کے اختیار کو ماننے سے انکار کرتے رہے اور شام، الہلال الخصیب (شام، اردن، فلسطین، اسرائیل) اور مصر میں مکمل اپنی اجارہ داری قائم کر لی اور مصر میں اپنے حامی عمر بن العاص کو گورنر تعینات کر دیا
داخلی معاملات اور مسائل
کوفہ، سیدنا عمر کے دور خلافت میں ایک عراقی فوجی چھاؤنی کے طور پر آباد کیا گیا شہر۔ سیدنا علی المرتضی کی حمایت کا مرکز و گڑھ تھا۔ سیدنا علی المرتضی جنوری ۶۵۷ عیسوی میں بصرہ کے قریب اپنی افواج کی فتح کے فوراً بعد اسے اپنا دارالحکومت مقرر کر دیا تھا۔ یہ قدم اور فیصلہ انتہائی متنازعہ ثابت ہوا ، کیونکہ مدینہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی راجدھانی اور ان کی آخری آرام گاہ تھی۔ دارالخلافہ کی یہ تبدیلی کی وجوہات زیادہ تر سیاسی نوعیت کی تھیں جن میں درج ذیل سب سے اہم ترین ہیں۔
- حمایت و نصرت حاصل کرنے کے لئے
- جغرافیائی طور پر ریاست کے مرکز سے ریاست کا نظم و نسق چلانا
- مدینہ کو خانہ جنگی کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھنا
علی نے صوبوں پر مکمل کنٹرول و تسلط بحال کرنے اور ریاستی محصولات کو عوام الناس میں مساوی طور پر تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ بدعنوانی کے خلاف ان کا سخت موقف، اگرچہ ایک قیمتی خصلت تھا، لیکن ان کے لیے ایک بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوا کیونکہ اس سے ان کی سیاسی قوت میں کمی واقع ہوئی۔ کلیدی صوبوں کے گورنر، جنہیں سیدنا عثمان غنی نے اپنے دور خلافت میں مقرر کیا تھا، سیدنا علی المرتضی کے بطور خلیفہ احکامات کی خلاف ورزی و حکم عدولی کرتے تھے اور اپنے ذاتی مفاد کے لیے ذخیرہ اندوزی جیسے گھناؤنے فعل میں ملوث تھے۔ داماد رسول ﷺ سیدنا علی نے کو اس قسم کے قبیح افعال کا ارتکاب کسی صورت قبول نہ تھا، جس کی وجہ سے وہ لوگ جو اب تک عثمان کی سیاسی طور پر کمزور قیادت میں استثنیٰ حاصل کر چکے تھے، سیدنا علی کے درپے ہو گئے اور ان سب کو سیدنا علی کے مخافین کی فہرست میں شامل کر دیا۔
چونکہ خانہ جنگی سے سلطنت کا شیرازہ بکھر چکا تھا، اس لیے سلطنت کی توسیع بھی رک گئی، جس کا نیتجہ یہ ہوا کہ کہ جنگ کے نتیجیے میں حاصل ہونے والا مال غنیمت نہیں موجود تھا جس سے خانہ جنگی کے اخراجات کی تلافی کی جا سکے۔سیدنا امیر معاویہ اور سیدنا علی المرتضی کے درمیان موجود کشیدگی ایک سیاسی جمود کی شکل اختیار کر چکی تھی، لیکن باوجود اس کے تمام اغراض و مقاصد کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا قطعاََ مبالغہ آمیزی نہ ہوگی کہ اس کشیدگی اور کشمکش میں سابق فریق کی پوزیشن کہیں زیادہ مضبوط تھی۔
وفات اور عواقب و نتائج
خوارج کا فتنہ ایک شدت پسندانہ شکل سے بڑھ کر ایک ناسور بن چکا تھا جس کی بیخ کنی بے حد ضروری تھی۔ سیدنا علی نے غداروں کے اس ٹولے پر اپنی فوجی طاقت کی ہیبت ۶۵۹ عیسوی میں جنگ نہروان کے موقع پر آشکار کی اور انہیں پیٹھ کے بل پٹک دیا ۔ جنگ نہروان میں عبرتناک شکست کا مزہ چکھنے کے بعد چونکہ ان کی فوجی قوت فنا ہو چکی تھی، اس لیے انہوں نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے مخفی اور پوشیدہ طور پر راہیں استوار کرنا شروع کر دیں۔ انہوں نے ۶۶۱ عیسوی میں سیدنا علی المرتضی شیر خدا شاہ مردان کو ایک زہریلی تلوار سے باجماعت نماز کی ادائیگی کے دوران میں وار کر کے انہیں زخمی کر دیا اور ان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انہوں نے اللہ کی راہ میں جاں نثار کر دی۔ عالم اسلام کا نیّر درخشاں اس پر سوز طریقے سے غروب ہو گیا۔ ان خارجی قاتلین نے معاویہ بن ابی سفیان اور عمر بن العاص کو بھی اپنے حملوں کا نشانہ بنایا لیکن وہ موت کو چکما دے گئے۔ ان میں سے موخر الذکر پر کبھی حملہ ہو ہی نہ سکا جبکہ قبل الذکر کو اس قاتلانہ حملے کے نتیجے میں صرف ایک معمولی چوٹ آئی۔
سیدنا علی المرتضی کی شہادت کے اگلے ہی روز، سیدنا امیر معاویہ خلافت کے عہدے کے لیے سب سے مضبوط ترین امیدوار بن کر سامنے آئے اور یہی وہ لمحہ تھا جب انہوں نے خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے حوالے سے اپنے ارادوں کا کھلے الفاظ میں اظہار کیا۔ ان کے مقابلے میں سیدنا علی المرتضی کے حامیان نے فرزند مولائے کائنات و خاتون، ریحان دل مرتضیٰ، برادر اکبر حضرت سید الشہداء یعنی سیدنا ابو محمد حسن بن علی رضی اللہ عنہ (دور حیات ۶۲۴ تا ۶۷۰ عیسوی) کو اتفاق کلی سے خلافت کے منصب پر براجمان کر دیا، لیکن امیر معاویہ نے سالانہ وظیفے کی ایک قابل قدر رقم کے بدلے میں انہیں خلافت کے عہدے سے دست بردار ہونے پر مجبور کر دیا (سیدنا حسن کی نیت امت مسلمہ کو منتشر ہونے سے بچانے کی تھی). باوجودیکہ کاتب وحی سیدنا امیر معاویہ نے اپنے جانشین کو مقرر نہیں کیا، لیکن یہ حلف آئندہ وقتوں میں ٹوٹنے والا تھا، اور اموی سلطنت (۶۶۱ تا ۷۵۰ عیسوی) کی صورت میں اسلامی ریاستی ڈھانچے میں ملوکیت کی بنیاد امیر معاویہ نے رکھ دی تھی۔ بنو امیہ نے داخلی شورشوں کے حوالے سے عدم برداشت کا رویہ اپنایا اور جہاں جہاں چند عناصر کو رشوت خوری اور لفاظی مطمئن کرنے میں ناکام رہتی، وہاں بنو امیہ اپنے زور کا لوہا منواتے۔
پس مرگ شہرت و دوام
اپنی حیات میں سیدنا علی المرتضی کا مقام و مرتبہ اور تعظیم و تکریم عالم اسلام میں اس حد تک نہیں تھا جس قدر موجودہ دور میں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جیسے جیسے امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ تشعیت ایک سیاسی دھڑے سے ایک مذہبی گروہ کی صورت اختیار کر گیا، انہوں نے اہل تسنن (جو کہ اسلام کے مذہبی عقائد کے حوالے سے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں) سے خود کو ہرحوالے سے ممیز و ممتاز بنا دیا ۔ مؤرخ جان جوزف سانڈرز کے مطابق میں: "...درحقیقت یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ شیعہ ابتدا میں اہل تسنن سے زیادہ سنت پر عمل پیرا تھے" (۱۲۷ تا ۱۲۸)۔ اور اس کے بعد کے واقعات، جیسے کہ ۶۸۰ عیسوی میں اموی افواج کے ہاتھوں سیدنا علی المرتضی کے دوسرے فرزند کریم نواسہ رسول ﷺ سید الشہدا حضرت اما حسین رضی اللہ عنہ کی انتہائی سفاکانہ اور درندانہ شہادت (دور حیات ۶۲۶ تا ۶۸۰ عیسوی)،نے خانواہ علی المرتضی کو ایک اعلی روحانی، اور تشیعت تقریباََ الوہی مقام پر فائز کر دیا۔ اہل تسنن کے ہاں بھی الوہی پر مبنی تو نہیں لیکن اہل بیت کو بہت زیادہ قدر و منزلت اور تعظیم و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
مولائے مومنین سیدنا علی اور ان خانوادہ کی لازواول قربانیوں نے انہیں اسلامی تاریخ کے پنوں میں امر کر دیا، اور اہل تسنن و تشیع کے ہاں ان کی بے حد تعریف و توصیف اور مدحت بیان کی جاتی ہے۔ مثلاََ پر ان کی دو دھاری تلوار، ذوالفقار، کو بعد ازاں کئی اسلامی حکمرانوں نے ایک پروقار علامت کے طور پر اپنایا اور اہل تشیع کے ہاں اکثر مردوں کے نام بھی اسی تلوار کے نام پر رکھا جاتا ہے جس سے یہ بہادری و شجاعت کی علامت کو ظاہر کرتا ہے اور مزید یہ کہ وہ اپنے بچوں کے نام سیدنا علی کے خانوادہ کے افراد پر رکھ کر اپنی عقیدے کا اظہار کرتے ہیں. اہل تشیع کے ہاں علی، حسن، حسین اور عباس جیسے نام عام طور پر رکھے جاتے ہیں ہیں، حالانکہ یہ نام صرف ان کے لیے ہی مخصوص نہیں ہے کیونکہ بہت سے سنی افراد بھی اپنے بچوں کے نام ان مقدس ہستیوں کے نام پر رکھتے ہیں۔ نبی ﷺ کے ساتھ ان کی قربت کو مد نظر رکھتے ہوئے آج بھی خانوادہ علی یا اہل بیت (گھرانہ محمد ﷺ) کی ثناخوانی اور ستائش آج بھی پورے عالم اسلام مین نہایت عقیدت اور احترام کے ساتھ کی جاتی ہے
شبیہ ہارون علیہ السلام باب العلم سیدنا علی ابن ابی طالب بلاشبہ اعزاز کے حوالے سے کئی اصحاب رسول پر سبقت رکھتے تھے۔ ان کے دور خلافت کی ناکامیوں کو اس شدید مخالفت سے منسوب کیا جاتا ہے جس کا انہیں سامنا کرنا پڑا تھا۔ اگر انہوں نے اس دور کی نسبت زیادہ پرامن وقت پر خلافت کی تو ان کی انتضامی صلاحیتیں بہترین طور پر واضح ہوتیں اور نکھر کر سامنے آتیں۔ اہل تسنن اور اہل تشیع دونوں کے ہاں حیدر کرار علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی حیثیت ایک ہیرو کی سی ہے اور حامل علم خیبر رضی اللہ عنہ کے وقار کا اعتراف دونوں میں بہت زیادہ ہے، اہل تشیع کے ہاں کچھ زیادہ ہی۔ اپنے دور اقتدار کے اختصار کے باوجود، سیدنا علی المرتضی نے بہادری کی مجسم تصویر کے طور پر یک پائیدار روحانی وراثت چھوڑی– جو مستقبل کے تمام حکمرانوں کے لیے ایک محرک ہے جو انصاف کے ٹھوس اصولوں پر عمل کرنا چاہتے تھے۔