کوہِ نور ہیرا، جسے مخلتف انداز سے پکارا گیا ہے، دنیا کے سب سے بڑے اور مشہور تراشیدہ ہیروں میں سے ایک ہے۔ یہ غالباً جنوبی ہندوستان میں ۱۱۰۰ اور ۱۳۰۰ کے درمیان میں دریافت کیا گیا تھا۔ اس جوہر کی شناخت ایک فارسی لفظ سے کی جاتی ہے جس کا مطلب ہے 'روشنی کا پہاڑ' اور اس کی وجہ تسمیہ اس کی حیرت انگیز جسامت اور حجم ہے- اصل میں ۱۸۶ قیراط (موجودہ وزن ۱۰۵۔۶)۔
اپنی طویل تاریخ میں، یہ جوہر کئی ہاتھ بدل چکا ہے، تقریباً ہمیشہ ہی یہ جوہر مرد حکمرانوں کے تصرف میں رہا۔ عظیم قیمتی پتھروں اورجواہر کے مانند، کوہ نور کے ساتھ بھی کئی مافوق الفطرت قصے، کہانیاں، بد شگونیاں اور بد قسمتی کی داستانیں منسوب کی گئی ہیں، بہر جال یہ بھی کہا جاتا ہے کہ صرف ایک خاتون مالک ہی اس کی بدشگونی کی فضا سے خود کو محفوظ رکھ پائے گی۔ اس نگینے پر دیگر کئی ممالک کے علاوہ ہندوستان اور پاکستان دونوں ہی مضبوط قسم کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن، اس وقت، کوہ نور اپنے موجودہ مسلط اور قابض، برطانوی شاہی خاندان کی شاہی عظمت کے لیے ایک جزو لاینفک کا کردار ادا کر رہا ہے۔
دریافت اور ابتدائی ملکیت
کوہ نور کی ابتدائی تاریخ بھی اس جوہر کے اندرونی حصے کی طرح بعید از روشن ہے۔ روایات سے معلوم ہوا ہے کہ اس ہیرے کا حوالہ میسوپوٹیمیا (بین النہرین) کی سرزمین سے ملنے والے چوتھی صدی قبل مسیح کے سنسکرت متون میں دیا گیا ہو لیکن مفکرین اس پر متفق نہیں ہیں۔ کوہ نور کی تاریخ کی بے شمار پیچیدگیوں میں سے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے واقعات سے متعلق قدیم صحیفوں اور دستاویزات میں مذکور کسی بڑے اور عظیم ہیرے کے طور پر اس کی شناخت کرنے کا رجحان ہے۔ زیادہ روایتی نظریہ یہ ہے کہ یہ جوہر غالباً ۱۱۰۰ اور ۱۳۰۰ کے درمیان میں دکن کی گولکنڈہ کانوں میں دریافت کیا گیا تھا، حالانکہ تحریری طور اس جوہر کا ظہور سب سے پہلے اس وقت ہوا جب یہ مغل سلطنت کے بانی اور منگول شہنشاہ چنگیز خان (تقریبا ۱۱۶۲ یا ۶۷ سے ۱۲۲۷ ) کے خلف، بابر (۱۴۸۳ تا ۱۵۳۰ ) کی ملکیت میں آیا۔ ۔ بابی کی سوانح میں اس ہیرے کا تذکرہ موجود ہے جو اس نے ۱۵۲۶ میں لکھی تھی اور ممکنہ طور پر اسے مال غنیمت میں حاصل کیا گیا تھا۔ یہ ایک ایسا نتیجہ تھا جو اس قیمتی اور نایاب سرمایہ کو اپنی طویل تاریخ مین بیش بہا حکمرانوں کے لالچ اور حرص کا چارہ بن پر کئی بار قبول کرنا پڑا۔ بابر نے پتھر کو "پوری دنیا کے یومیہ اخراجات کی نصف لاگت" قرار دیا۔ (ڈکسن سمتھ، ۴۹)
ایک متبادل نظریہ یہ ہے کہ بابر اپنی سوانح میں کسی اور نگینے کی جانب اشارہ کر رہا تھا اور کوہ نور دراصل اس کا بیٹے اور جانشین جس نے ۱۵۲۶ میں پانی پت کی پہلی جنگ میں فتح حاصل کرنے کے بعد گوالیار (وسطی ہندوستان کی ایک ریاست) کے راجہ سے بطور تحفہ حاصل کیا تھا۔ ۔ ان میں سے جس روایت کو بھی قوی تصور کیا جائے، نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے، اور وہ یہ کہ مغل شاہی خاندان کے تصرف میں یہ قیمتی اور لازوان پتھر موجود تھا، اور انہوں نے اسے اپنے تخت طاوس میں جڑ کر اپنے درباری زائرین کو استعجاب میں مبتلا کر دیا۔ ایک تیسرا نکتہ نظر (جس کا نتیجہ بھی وہی نکلا جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں) یہ بھی ہے کہ یہ ستروھیں صدی عیسیوی کے وسط تک یہ جوہر مغل بادشاہوں کے ہاتھ نہیں لگا تھا نہیں تھا جب مغل بادشاہوں نے دریائے کرشنا کی کولور کانوں میں اس کی دریافت کے بعد پتھر پر اپنا قبجضہ جمایا تھا۔
نادر شاہ اور ’روشنی کا پہاڑ‘‘
اٹھارویں صدی تک ہم اس جوہر کی تاریخ کے حوالے سے مضبوط اور مستند روایات تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جب ایرانی رہنما نادر شاہ (۱۶۹۸ تا ۱۷۴۷) نے ۱۷۳۹ میں دہلی پر حملہ کیا اور اس پر قبضہ کر لیا تو اس وقت کے مغل شہنشاہ کی طرف سے اسے اپنی پگڑی میں چھپانے کی کوشش کے باوجود اس نے یہ ہیرا حاصل کر لیا۔ جب اس کی آنکھوں نے پہلی بار اس پتھر کا دیدار حاصل کیا تو اس کی جلوت اور رخشندگی سے متاثر ہو کر نادر شاہ نے اسے کوہ نور یا 'روشنی کا پہاڑ' قرار دیا، اور تب سے یہ نام لوح تاریخ پر مرقوم ہے۔ جب نادر شاہ کا انتقال ۱۷۴۷ میں ہوا تو اس قیمتی پتھر کا دعویٰ ان کے صف اول کے جنرل احمد شاہ (۱۷۲۲ تا ۱۷۲۲) نے کیا جس نے افغانستان میں درانی خاندان کی بنیاد رکھی۔ درانی خاندان نے بالآخر اقتدار پر اپنی گرفت کھو دی، اور شاہ شجاع (۱۷۸۵ تا ۱۸۴۲) کو ۱۸۱۳ میں ہندوستان کی طرف بھاگنے پر مجبور کیا گیا جب اس نے یہ ہیرا پنجاب کے حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ (۱۷۸۰ تا ۱۸۳۹) کو تحفتا عنایت کیا۔ . مہاراجہ دلیپ سنگھ (۱۸۳۸ تا ۱۸۹۳) کو صرف پانچ سال کی عمر میں یہ وراثت میں ملی، لیکن وہ پنجاب اور سکھ سلطنت کے آخری حکمران ثابت ہونے والے تھے کیونکہ برطانوی سلطنت کے خیمے شمالی ہندوستان تک پھیلے چکے تھے۔
ملکہ وکٹوریہ
برطانوی حمایت یافتہ ایسٹ انڈیا کمپنی اس ہیرے کی اگلی مالک تھی جب اس نے ۱۸۴۹ عیسوی میں پنجاب پر قبضہ کر کے اپنے پاوں یہاں جما لیے۔ برطانوی-سکھ جنگوں (۱۸۴۵ تا ۱۸۴۹) کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والے امن معاہدہ میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ یہ ہریہ ملکہ وکٹوریہ (دور حکومت ۱۸۳۷ تا ۱۹۰۱) کے حوالے کیا جانا تھا۔ اس کے بعد ہیرے کو ممبئی (اس وقت بمبئی) سے پورٹسماؤتھ، انگلینڈ، ایچ ایم ایس میڈیا پر بھیجا گیا تھا۔ یہ پتھر بحفاظت اور سالم حالت میں اپنی منزل تک پہنچ گیا اور جولائی ۱۸۵۰ میں لندن میں منعقد ہونے والی ایک خصوصی تقریب میں ملکہ کو پیش کیا گیا۔ کوہ نور ان ہیروں کی تگڈم کا مرکزی ہیرا تھا جسے سونے اور تامچینی بازو بند میں بڑی نفاست سے سجایا گیا تھا اور اسے بازو بند کو بازو کے بالائی حصے پر پہنا جانا تھا. مشہور ہے کہ، پتھر کے ساتھ اس کی بد شگونی کی علامت کے طور پر ایک تحریر تھی جس پر درج تھا:
جس کے پاس اس ہیرے کی ملکیت ہے وہ اس کرہ ارض کا مالک ہوگا لیکن یہ ہیرا اس پر اس عالم کی تمام بدحالیوں کو بھی واضح کرتا جائے گا۔ اسے بلا خوف و تردد صرف خدا یا عورت ہی پہن سکتے ہیں۔
(ولکنسن، ۵۹)
بدشگونی کی یہ روایت دہلی گزٹ میں ایک سنسنی خیز خبر سے پھیلنی شروع ہوئی تھی جسے پھر السٹریٹڈ لندن نیوز نے مزید بھڑکایا اور مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے اسے انگلستان کے عوام میں بھی مقبول کر دیا۔ انگلستان میں اخبار نویس اور صحافی طبقہ ۱۸۵۱ میں لندن میں جلد ہی منعقد ہونے والی اور پہلے ہی سے بہت زیادہ متوقع عظیم نمائش کے لئے بہت زیادہ تشہیر کر رہے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی زبان زد عام تھا کہ ہیرے کو عوام کے سامنے دکھایا جائے گا۔
ملکہ کے بارے میں روایت ہے کہ وہ اس قیمتی اور ضوفشاں پتھر کی جسامت اور خد و خال سے بے حد متاثر ہوئی تھیں، اور اس پر انہوں نے تبصرہ کیا کہ یہ واقعی ’’ایک قابل فخر ٹرافی ‘‘ ہے (ڈکسن سمتھ، ۵۰)۔ تاہم، وہ اس کے 'گلابی تراش خراش کے باعث ذرا غیر مطمئن تھی جس کے نتیجے میں اس کی چمک اور تابانی میں قابل قدرکمی واقع ہو گئی تھی۔ مزید برآں، اس وقت یورپ میں رواج کثیر جہتی جواہرات کا تھا اور سراسر جسامت سے زیادہ چمک کو ایک خاص ترجیح دی جاتی تھی۔ اس کے باوجود، یہ عظیم الشان پتھر’’عظیم نمائش ‘‘ میں سب کی آنکھوں کا تارا تھا، یہاں تک کہ طنزیہ میگزین پنچ نے خستہ حال پتھر کو "تاریکی کا پہاڑ" قرار دیا ہے (تارشیس، ۱۴۲)۔ ملکہ نے اسے نمائش کی افتتاحی تقریب میں بھی اسے پہن پر اپنی تزئین و آرائش میں اضافہ کیا تھا۔ بعد ازاں اس کے شوہر شہزادہ البرٹ (۱۸۱۹ تا ۱۸۶۱) نے ملکہ اور معروف ماہر نظریات سر ڈیوڈ بریوسٹر سے مشاورت کے بعد، ۱۸۵۲ میں لندن کے شاہی جواہرین رابرٹ گیرارڈ کی ہدایت پر اس پتھر پر دوبارہ کام کیا گیا۔ ڈیوک آف ویلنگٹن کو پہلی ضرب لگانے کا اعزاز بخشا گیا، اور اس کے بعد اس نے اپنپے فن کا جلوہ دکھانے کے لیے دو ولدیی ماہر سنگ تراشوں کوموقع سرفراز فرمایا اور یہ کاریگر وورسینجر اور فیڈر تھے۔
ترمیم و تجدید کے عمل کو مکمل ہونے میں تقریباً ۴۵۰ گھنٹے صرف ہوئے، اور اس عمل کے نتیجے میں اس جوہر کو مزید پہلو فراہم کیے جس کے باعث یہ ہیرا بیضوی شکل کے ایک شاہکار کے طور پر نمودار ہوا اور وزن کو ڈرامائی طور پر ۱۸۶ سے کم کر کے ۱۰۵۔۶ قیراط کر دیا گیا۔ پتھر کی لمبائی ۳۔۶ سینٹی میٹر، اونچائی ۳۔۲ سینٹی میٹر اور چوڑائی ۱۔۳ سینٹی میٹر ہے۔ اگرچہ اب یہ نمایاں طور پر چھوٹا ہو گیا ہے، لیکن اس کی تراش خراش نے کئی خامیوں اور نقائص کو رفع کر دیا اور پتھر کو جڑاو پِن کے طور پر پہننے کے لیے زیادہ موزوں بنا دیا، جسے ملکہ نے ترجیح دی۔ فرانز زیور ونٹر ہالٹر کی وکٹوریہ کی ایک مشہور پینٹنگ 1856 میں تیار کی گئی تھی، اور اس میں دکھایا گیا ہے کہ وہ ایک جڑاو پِن سے آراستہ ہوئے ہیں جو کسی زمانے میں ملکہ ایڈیلیڈ (۱۷۹۲ تا ۱۸۴۹) کی ملکیت تھا جو اب کوہ نور کے ساتھ مربوط ہے۔ یہ نئی ترتیب ایک بار پھر گارارڈ کے جواہرین کے ذریعہ انجام دیا جانے والا فعل تھا۔ دوسرے مواقع پر، وکٹوریہ اس جوہر کو یا توکنگن یا کمر بند کے طور پر پہنتی تھی۔
شاہی تاج کے جواہرات
شاہی تاج کے جواہرات کے حصے کے طور پر کوہ نور ہیرا کئی تاجوں میں منقش کیا گیا ہے لیکن مرد پہننے والوں کے لیے بد قسمتی کے شگون کے طور پر اس کی شہرت کی وجہ سے، یہ صرف شاہی خاندان کی خواتینن کے تاجوں میں ہی مرصع کیا جاتا ہے۔ اسے ۱۹۰۲ میں ملکہ الیگزینڈرا (۱۸۴۴ تا ۱۹۲۵) کے تاج میں اس کی تاجپوشی کے لیے جڑا گیا تھا اور ۱۹۱۱ میں ملکہ مریم (۱۸۶۷ تا ۱۹۵۳) کی تاجپوشی کے لیے اسے ایک نئے تاج میں دوبارہ ترتیب دیا گیا تھا۔ آج، یہ ہیرا موجودہ بادشاہ چارلس سوم (دور ۲۰۲۲ تا حال) کی مرحوم نانی ملکہ الزبتھ مادر ملکہ (۱۹۰۰ تا ۲۰۰۲) کے تاج کے مرکز مین پوری آب و تاب اور تابانی کو برقرار رکھے ہوئے چمک رہا ہے اور اپنی تابانی سے آنکھوں کو خیرہ کر رہا ہے۔ ملکہ کی والدہ نے یہ تاج ۱۹۳۷ میں اپنی تاجپوشی کے موقع پر اسے نمایاں کیا تھا۔ ہیرے کو ایک علیحدہ نقربی منقش دستہ میں نصب گیا ہے، اور اسی مواد سے تاج کا باقی حصہ بھی بنایا گیا ہے۔ اس تاج پر مزید ۲۸۰۰ ہیرے نصب ہیں جن میں ۱۷ قیراط کا وہ ہیرا بھی شامل ہے جو سلطنت عثمانیہ کے سلطان نے کریمین جنگ (۱۸۵۳ تا ۱۸۵۶) کے دوران میں مدد کے لیے شکریہ ادا کرتے ہوئے ملکہ وکٹوریہ کو تحفتا دیا تھا۔ اگرچہ یہ مربع شکل میں تراشا گیا پتھر اپنے آپ میں متاثر کن ہے، لیکن اس کے اوپر براہ راست نصب عظیم الجثہ کوہ نور کی وجہ سے اس کی چمک دمک قدرے مدھم ہو گئی ہے۔ ملکہ مادر نے یہ تاج ہر سال پارلیمنٹ کے ریاستی افتتاح کے موقع پر اور ۱۹۵۳ میں اپنی بیٹی الزبتھ دوم کی تاجپوشی کے موقع پر پہنا تھا۔ یہ تاج اور کوہ نور آجٹاور آف لندن کی واٹر لو بیرکس کے اندر گوھر خانہ میں شاہی تاج کے زیورات کے ساتھ دیکھے جا سکتے ہیں۔
بازیافت کے لیے عالمی صدائیں
بھارتی سرکار کی جانب سے کوہ نور کی اپنے وطن واپسی کے لیے متواتر درخواستیں پیش کی جا چکی ہین۔ اس طرح کی پہلی درخواست ۱۹۴۷ میں سامنے آئی تھی کیونکہ یہ پتھر برطانوی راج سے ملک کی آزادی کی علامت بن گیا تھا، جو اسی سال حاصل کی گئی تھی۔
ایک اور کھلاڑی نے ۱۹۷۶ میں اس بحث میں حصہ لیا جب پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس ہیرے کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ ایران اور افغانستان نے بھی قیمتی پتھر پر دعویٰ کیا ہے۔ کوہ نور کی برصغیر میں واپسی کے مطالبات کسی بھی طرح ختم نہیں ہوئے، اور ۲۰۱۵ میں، ہندوستانی سرمایہ کاروں کے ایک گروپ نے ہیرے کی واپسی کے لیے قانونی کارروائی کا آغاز بھی کیا۔ تاہم، آج تک، برطانوی شاہی خاندان اس سب سے مشہور اور مطلوبہ ہیرے سے اپنا رابطہ منقطع کرنے سے گریزاں ہے۔