کتب خانہ پرگامون شہر پرگامون (جسے پرگیمم بھی کہا جاتا ہے) میں سلطنت اتالیہ کے بادشاہ یومینس دوم (دور حکموت ۱۹۷ تا ۱۵۹ ق م) نے قائم کیا تھا یہ کتب خانہ کتب خانہ سکندریہ کے بعد سب سے معتبر اور مستند دار المطالعہ اور دبستان علم تھا۔ یومینس دوم سے لے کر بازنطینی دور تک یہ کتب خانہ یکسر خدمات انجام دیتا رہا۔
پرگامون (ایشیائے کوچک، موجودہ ترکی میں) کا خاندان اتالیہ (۲۸۱-۱۳۳ قبل مسیح) کسی شاہی پس منظر سے تعلق نہ رکھتا ہے اور ان کی بنیادیں انتہائیں عاجز تھیں اورقابل ذکر حکمران کے طور پر اپنی پہچان قائم کرنے کے لیے، فنون اور خطوط کی سرپرستی میں انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یومینس دوم نے، خاص طور پر، ادب اور فن کو بہت زیادہ اہمیت دی اور کتب خنہ کو پرگامون کے ایکروپولیس (بالا حصار) پر واقع ایتھینا کے مندر کے ساتھ ملحقہ طور پر تعمیر کروایا۔ روایت ہے کہ اپنی نقطہ عروج پر، اس کتب خانہ میں ۲۰۰،۰۰۰ کتابیں موجود تھیں، جن میں زیادہ تر چرمی کاغذ پر لکھی گئی تھیں۔ مفکرین کی طرف سے مادہ خط کے مطالبے نے شہر میں چرمی کاغذ کی تیاری کی حوصلہ افزائی کی اور رومی دور کے دوران میں پرگامون اس مادہ کا سب سے بڑا فراہم کنندہ بن گیا، اتنا کہ انگریزی لفظ پارچمنٹ لاطینی پرگیمینم سے ماخوذ ہے جس کا حوالہ پرگامون بذات خود ہے۔
پرگامون اور اسکندریہ کے کتب خانوں کے درمیان مسابقت کی وجہ سے دونوں زیادہ سے زیادہ کتابیں حاصل کرنے کے لیے مسلسل کد و کاوش کر رہے تھے، جس کی وجہ سے کچھ مفکرین نے یومینیس اور اس کے بھائی اٹلس دوم (دور حکومت ۱۵۹ تا ۱۳۸ ق م) یا مصری فرعون بطلیموس پنجم ایپیفنیس (دور حکومت ۲۰۴ تا ۱۸۰ ق م) اور بطلیموس ششم فیلومیتر (دور حکومت ۱۸۰ تا ۱۶۴ ق م اور ۱۶۳ تا ۱۴۵ ق م) اور دیگر شاہان زمانہ سے اپنی کتابوں کو ضبط ہونے سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی نجی کتب خانوں کو چھپانا شروع کر دیا اور اس طرح ان کتب خانوں کو بادشاہان کی حریصانہ نگاہوں سے محفوظ رکھا۔
مؤرخ پلوٹارک (بلوطرخس) (۱۲۰ یا ۱۲۵ ق م تا ۵۰ یا ۴۵ ق م) کے مطابق، مارک انٹونی (۸۳ تا ۳۰ قبل مسیح) نے کتب خانے کا پورا مجموعہ اپنی محبوبہ کلیوپیٹرا VII (۶۹ تا ۳۰ ق م) کو۴۳ قبل مسیح میں کتب خانہ سکندریہ کے لیے تحفے کے طور پر دیا تھا۔ ۳۱ قبل مسیح میں ایکٹیم کی لڑائی میں اوکٹیوین لشکر کے ہاتھوں شکست کے بعد، آکٹیوین نے بطوربادشاہ آگسٹس سیزر (دور حکومت ۲۷ تا ۱۴ ق م) نے سب نہیں لیکن کچھ طومارواپس پرگامون کو کے حوالے کر دیے تھے۔
بلاشبہ ۲۶۲ عیسوی کے زلزلے میں باقی شہر کے ساتھ ساتھ کتب خانہ کو بھی نقصان پہنچا تھا، لیکن شواہد بتاتے ہیں کہ یہ بازنطینی سلطنت (۳۳۰ تا ۱۴۵۳ عیسوی) کے ابتدائی سالوں میں بھی اپنی خدمات انجام دے رہی تھی۔ کتب خانہ کی حتمی تقدیر تو معلوم نہیں ہے لیکن غالب امکان ہے کہ اس مجموعے کو لائبریرین اور دیگر علما اور مفکرین نے مسمار کر دیا تھا، بعد ازاں شہر کو آخرکار تقریبا ۱۳۰۰ عیسوی کے کے کچھ عرصہ بعد ترک کر دیا گیا اور یہ شہر ویرانی کے دامن میں چلا گیا۔ . برگاما ترکی کی بیرونی سرحد پر موجود پرگامون کو ۲۰۱۴ میں یونیسکو کا عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا گیا تھا، جس نے دنیا بھر سے آنے والوں سیاحوں اور مداحوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ پرگامون عجائب خانہ میں قدیم شہر کے متعدد نمونے رکھے گئے ہیں۔
پرگامون اور فیلوترس
پرگامون کی تاریخ کم از کم یونانی قدیم دور (تقریبا ۸۰۰ تا ۴۸۰ قبل مسیح) سے نسبت رکھتی ہے اگرچہ شواہد بہت پہلے کی آبادکاری کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس خطے کو سائرس دوم (جسے سائرس اعظم یا ذوالقرنین بھی کہا جاتا ہے، دور حکومت تقریبا ۵۵۰ تا ۵۳۰ قبل مسیح) نے سلطنت الأخمينية میں شامل کیا تھا حتی کہ اسے سکندر اعظم نے تقریبا ۳۳۴ قبل مسیح میں مقدونیائی سلطنت کا حصہ بنایا۔ ۳۲۳ قبل مسیح میں سکندر کی موت کے بعد، اس کا قبضہ اس کے ایک جرنیل لیسیماچس (۳۶۰ تا ۲۸۱ قبل مسیح) کے پاس چلا گیا تھا جس نے سکندر کے دوسرے جانشینوں (ڈیاڈوچی) کے خلاف جنگ کی اور جنگ کے دوران میں شہر کو اپنے ایک افسر کے حوالے کر دیا جسے دنیا فیلوترس کے نام سے جانتی ہے (دور حکومت ۲۸۲ تا ۲۶۳ قبل مسیح)۔
جب ۲۸۱ قبل مسیح میں لیسیماچس جنگ میں مارا گیا تو فیلوترس نے خزانے میں موجود ۹۰۰۰ تولے چاندی کے شاہانہ تصرف کے حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کی اور اس خزانے کو اپنے نئے مالک کے حوالے کرنے کے بجائے اسے شہر اور ساتھ ہی پڑوسی بستیوں کی بہتری اور فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کا بہترین فیصلہ کیا۔ . اس کی سخاوت آس پاس کے شہروں کے انتہانئی ہم آہنگی کی صورت میں متنگ ہوئی، جس سے وہ پرگیمون کی سلطنت کا اتالیہ خاندان قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ چونکہ فیلوترس جوانی سے ہی ایک خواجہ سراتھا ، نے اپنے بھتیجے یومینس اول (دور حکومت ۲۶۳ تا ۲۴۱ قبل مسیح) کو گود لیا جس نے بعد ازاں اپنے رشتہ دار، اتلس اول (دور حکومت ۲۴۱ تا ۱۹۷ ق م) کو اپنے جانشین کے طور پر گود لے لیا۔
اتلس اول نے اس علاقے کے کلیتی غالیوں کو شکست دی، جو برسوں سے پرگامون کو ہراساں کر رہے تھے، اس خطے کو مستحکم کیا، اور فنون کی سرپرستی کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ مفکر لائنل کاسن اس پر تبصرہ کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں:
اتلس اول، جس سے یہ شاہی ریاست اور سلطنت موسوم ہے، مصوریاور مجسمہ سازی کا بہت بڑا رسیا تھا. شاہانہ خریداریوں کے ذریعے، اس نے ایک زبردست اور بیش قیمت مجموعہ جمع کیا جس کی نظیر معاصرین میں ملنا ممکن نہ تھا– جو تحریری ثبوتوں کے مطابق مغربی دنیا کا پہلا نجی فن پاروں اور خزائن کا مجموعہ ہے – اور بہترین معاصر فنکاروں کو وظیفہ دے کر ، اس نے شہر کو انتخابی مجسموں سے مزین اور آراستہ کیا۔ (۴۹)
فرانسیسی غالوں کو شکست فاش کرنے کے بعد، اتلس اول کو عوام اور بادشاہ دونوں کا نجات دہندہ قرار دیا گیا تھا، اور اسے عوام و خواص کی جانب سے شرافت کا درجہ عطا کر دیا گیا، اور اسی دوران میں وہ روم کے ساتھ اتحاد قائم کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ اپنے شہر کو خوبصورت بنانے کے دوران، اس نے مقدونیائیوں کے خلاف فوجی مہموں میں روم کی مدد بھی کی، جس سے رومیوں سے اس کے شہر تحفظ کی ضمانت دی اور مسلسل استحکام کو یقینی بنایا۔
یومینس دوم، مصر اور چرمی کاغذ
اتلس اول کا انتقال ۱۹۷ قبل مسیح میں فالج کا دورہ پڑنے سے ہوا اور اس کے بعد اس کا بیٹا اور جانشین یومینس دوم ، اتالیہ سلطنت کا فرمانروا مقرر ہواجس نے پرگیمون کو ایشیائے کوچک کے عظیم ترین شہروں کی فہرست میں شامل کر دیا اور ایک اہم ثقافتی اور فکری مرکز بنا دیا اور اس وقت اس کی عظمت کا شہرہ سکندریہ کے پایے کا تھا۔ اسکندریہ اپنی کتب خانہ کی معرفت سے اس دھرتی پر مشہور و معروف تھا، جس نے اس وقت کے سب سے بڑے ذہنوں کو اپنی طرف متوجہ کیا، اور یومینس دوم اپنے شہر کے لیے بھی یہی اعزاز چاہتا تھا۔ کاسن لکھتے ہیں:
یومینس دوم نے اس کام کو اسی طریق پر جاری رکھا جس کا ڈول اتلس نے ڈالا تھا اور اس کے علاوہ، پرگامون کو ادب اور علمی دنیا کا ایک اہم مرکز بنا دیا، دیگر پالیسیوں کے ساتھ، اسے ایک کتب خانہ کا تحفہ بھی عطا کیا جس نے اسکندریہ کے کتب خانہ کو آنکھیں دکھائیں۔ بطلیموس کے ایک صدی بعد اس سلسلے کو شروع کرتے وقت، اسے کتابوں اور نادر نسخہ جاجت کی تحصیل کے لیے موخر الذکر سے بھی زیادہ شوق اور لگن سے خود کو قربان کرنا پڑا۔ روایت مقبول ہے کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں ارسطو کا تحریر کردہ مجموعہ آیا تھا، اور جو پرگامون کے علاقے میں آباد تھے، انہوں نے کتابوں کو چھپانے کے لیے ایک خندق میں دفن کر دیا اور انھیں شاہی چنگل میں گرنے سے بچا لیا۔ اپنے کتب خانہ کے محل وقوع کے لیے، یومینس دوم نے ایک نمایاں جگہ کا انتخاب کیا: اس نے اسے حکمت کی دیوی، ایتھینا کے مقبرے کا ملحقہ بنایا۔ یہ اس وقت سامنے آیا جب کھدائی سے اس کی باقیات برآمد ہوئیں جو کہ کسی بھی کتب خانہ کے قدیم ترین باقیات ہیں۔ (۴۹)
لائبریری کا مجموعہ یومینس دوم کے شوق تحصیل اور غالباً، اس کے بھائی، اتلس دوم (دور حکومت ۱۵۹ تا ۱۳۸ ق م) کے ساتھ ساتھ پرگامون کے امیر شہریوں کی مدد سے فراہم کیا گیا تھا۔ پلوٹارک (بلوطرخس) کے مطابق، اپنے نقطہ عروج پر، اس کتب خانہ کو ۲۰۰۰۰۰ طومار اور ادبی نواردات زینت بخژ رہے تھے، حالانکہ، چونکہ مسودات کی کوئی فہرست باقی نہیں رہا، اس لیے یہ جاننا ناممکن ہے کہ یہ تعداد کتنی درست ہے، اور پلوٹارک اس لائبریری کے اپنے عروج پر پہنچنے کے کافی عرصے بعد اس تعداد کا ذکر کرتا ہے۔ تاہم، یہ امکان ہے کہ پلوٹارک کا دعویٰ قابل قبول ہے کیونکہ یہ ریکارڈ کیا گیا ہے کہ لائبریری نے اس دور کے چند عظیم مفکرین کو اپنی طرف متوجہ کیا تھا جو غالباً معمولی ذخیرے کی طرف متوجہ نہیں ہوئے ہوں گے اور آثار قدیمہ کے شواہد بھی کتابوں کی تعداد کے حوالے سے مناسب ثبوت فراہم کرتے ہیں۔
شہر کی طرف متوجہ ہونے والے دانشوروں میں علم نحو کے ماہر اور رواقیت کے پیش رواں فلسفی کریٹس آف مالس (دوسری صدی قبل مسیح) بھی تھے، جنہوں نے زمین کے پہلے معروف گلوب کی تعمیر کی، اور پرگیمون میں صدر مُہتَمَم کُتَب خانَہ کے طور پر یومینس دوم یا اتلس دوم کی خدمات حاصل کیں۔ ان کے دیگر اعزازات میں، کریٹس کو ۱۶۹ یا ۱۵۹ قبل مسیح میں روم میں پرگیمون کے ایلچی کے طور بھی پر جانا جاتا ہے، جو آن گرامریئنز (علی العلم الصرف و النحو) کے مصنف سیوطونس کے بقول ایک کھلے گڑھے میں گرنے سے اپنی ٹانگ ٹوٹنے کے بعد صحت یاب ہونے کے لیے روم میں ہی مقیم رہا، اور وہ گرامر (علم صرف و النحو) پر روزانہ لیکچر دیتے تھے اور "ہمارے شہر میں گرامر کے مطالعہ کو متعارف کرانے والے پہلے شخص تھے" (سیوطونس, دوم)۔ کریٹس اسکندریہ کی لائبریری کے سربراہ سامتھرایس کے اریسٹارکس (۲۲۰ تا ۱۴۳ قبل مسیح )کا ہم عصر تھا۔
جیسے جیسے وقت کا پہیہ گھومتا رہا، پرگیمون اور اسکندریہ کے کتب خانوں میں مسابقت بھی اسی طور بڑھتی گئی۔ ساتھ ساتھ کتابوں کے حصول اور ان کے تحفظ اہمیت بھی بڑھی- نیز معیاری عملہ کی تعداد میں بھی قدرے اضافہ ہوتا گیا۔ جب سامتھریس کا اریسٹارکس پرگیمون میں ایک قابل ذکر سماجی و سیاسی رتبہ اور اختیار حاصل کی طرف مائل نظر آیا تو اسے بطلیموس ہشتم کے حکم کے تحت ۱۴۴ قبل مسیح میں گرفتار کر لیا گیا اور رہائی کے فوراً بعد وہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ تاہم، اس دعوے کی حقانیت پر کئی سوالات اٹھائے گئے ہیں اور، کچھ مفکرین اور ارباب دانش کے انوسار، یہ بازنطیم کا ارسطوفینس (۲۵۷ تا ۱۸۰ ق م)، ارسٹارکس کا استاد اور پیشرو تھا، جسے بطلیموس پنجم نے پرگیمون جانے کی تیاری کے لیے قید کر دیا تھا۔
اپنی تصنیت قدرتی تاریخ (نیچرل ہسٹری) میں پلینی اکبر (۲۳ تا ۷۹ عیسوی) یہ بیان کرتا ہے کہ یہ خصومتپرگیمون لائبریری کی تعمیر کے ساتھ ہی شروع ہو چکی تھی، یومینس دوم اور بطلیموس پنجم کے درمیان، اور جزوی طور پر، اس کا نتیجہ مصر میں پرگیمون کو کتابوں کے نسخے تیار کرنے کے لیے آبی نرسل کی فراہمی کے حوالے سے انکار کی صورت میں نکلا
ہم نے ابھی تک دلدلی زمین والے پودوں اور نہ ہی دریاؤں کے کناروں پر اگنے والی جھاڑیوں کے حوالے سے ابھی تک کوئی اقدامات نہیں اٹھائے ہیں: مصر سے موضوع ہٹانے سے پہلے، ہمیں آبی نرسل کی نوعیت کا کچھ ذکر کرنا چاہیے، یہ مدںطر رکھتے ہوئے کہ مہذب زندگی کے تمام استعمالات و معمولات کا گراں بہا انحصار کاغذ کے مناسب و معقول استعمال پر ہے جیسا کہ تمام واقعات میں، ماضی کے واقعات کی یاد کے حوالے سے ... بعد ازاں، بادشاہ بطلیموس اور عالی جاہ یومینس کے درمیان اپنے اپنے کتب خانوں کی بنیاد پر ایک مخاصمت پیدا ہو گئی، اور اسی بنا پر بطلیموس نے آبی نرسل کی برآمد کو ممنوع قرار دے دیاجس پر، جیسا کہ وارو کا بیان ہے، چرمی کاغذ اسی مقصد اور اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے پرگیمون میں ایجاد کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اس شے کا استعمال، جس کے ذریعے انسان کو لافانی ہونا یقینی بنایا جاتا ہے، عالمی سطح پر مشہور ہو گیا۔ (تیرہ، ۲۱)
پلینی کے اس حوالے سے اس عام غلط فہمی کو بڑھاوا ملا ہے کہ چرمی کاغذ(چمڑے، کھرچ کر اور علاج شدہ جانوروں کی کھالیں سے تیار شدہ) پرگیمون میں ایجاد ہوا تھا لیکن کاسن، جدید دور کے مفکرین کے انکشافات کے عمومی اتفاق کی بازگشت کرتے ہوئے لکھتا ہے:
چونکہ مشرق قریب میں چمڑے پر لکھنے کا رواج ایک طویل عرصے سے رہا ہے، اس لیے پرگیمینز نے شاید ہی "چرمی کاغذ ایجاد" کیا ہو۔ انہوں نے جو کچھ کیا وہ لکھنے کے لیے چمڑے کی کھالوں کی تیاری کو بہتر بنانا اور ان کے استعمال کو تیزی سے اپنانا تھا، جو کہ مصری آبی نرسل سے تیار شدہ کاغز کی درآمد پر پرگیمون کے انحصار کو کم کرنے کی خواہش سے شروع کیا جا سکتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سلطنت اتالیہ کے بادشاہوں کے تحت پرگامون ایسی کھالوں کی تیاری کا مرکز رہا تھا۔ روم کی بہم رسانی اس قدر خصوصی طور پر وہاں سے ہوتی تھیں کہ لکھنے کی جلد کے لیے رومن لفظ پرگیمینا "پرگیمون کا کاغذ" (جہاں سے ہماری اصطلاح "پارچمنٹ") تھا۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ان روایات کو گڑھا گیا ہے ، تو دونوں خاندانوں کے درمیان مخاصمت اور دشمنی کی یہ کہانیاں حقیقیت کی عکاسی کرتی ہیں۔ پلینی اکبر،جو کہ روم کے جامع علوم قاموس کا مدیر اعلی تھا، کو کوئی شک نہیں تھا: وہ حقیقت کو بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہوتا ہے کہ "اسکندریہ اور پرگیمون کے بادشاہوں نے سخت مقابلے میں اپنے اپنے کتب خانوں کی بنیاد رکھی تھی۔" (۵۲)
اگرچہپلینی چرمی کاغذ کی بنیاد اور اختراع کے بارے میں پرگیمون کے اعزار کے متعلق غلط تھا، پرگیمون اور سکندریہ کی علمی دشمنی پر اس کے مشاہدات کو دوسرے مصنفین کے شواہد سے تائید حاصل ہوتی ہے۔
کتب خانہ کے خواص
یومینس دوم نے پرگیمون کے ایکروپولس کو ایتھنز کے ایکروپولس کے عکس کے طور پر ڈیزائن اور تعمیر کیا تھا، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نے جان بوجھ کر ایتھینا کے مندر سے ملحق لائبریری کو اسکندریہ کی لائبریری کی عکاسی کرنے کے لیے بنایا تھا جو سیراپیم (معبد الہول) سے منسلک تھا اور مخلوط النسل مصری و یونانی دیوتا سیراپس کا مندر تھا۔ کتب خانہ پرگامون ظاہری طور پر اور فن تعمیر کے حوالے سے ایک عام سی عمارت تھی لیکن اس کی تعمیر حد درجہ کارگزاری اور لیاقت کے لیے کی گئی تھی۔ کاسن عمارت کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ حال ہی میں کی گئی کھدائیوں کے ذریعے اس امر کی شناخت کی گئی ہے کہ:
پرگیمون کا ایکروپولس شاندار عمارتوں سے معمور ایک عظیم الشانن شہری حصے میں تبدیل ہو گیا تھا۔ ان عمارات میں ایتھینا کا مندر بھی شامل تھا۔ یہ ایک پناہ گاہ کے اندر موجود تھا جسے ستون دار دالان نے چاروں اطراف سے گھیرا ہوا تھا، اور ماہر آثار قدیمیہ کے زیر سرپرستیت ہونے والی کھدائیوں نے اس ستون دار دالان کے شمال کی طرف مسلسل چار کمروں کی بنیادوں کی نشانندہی کی ہے۔ یہ ماہرین اس امر پر قائل ہیں کہ ان کمروں کا تعلق کتب خانے سے ہی تھا. مغرب کی جانب موجود سب سے بڑا کمرہ تھا جو تقریباً ۱۳۔۶ میٹر لمبا اور ۱۵.۱ میٹر چوڑا [۴۴.۵x۵۰ فٹ]، اور ایک چبوترا جو کہ تقریباً ۹ میٹر[۲ فٹ] اونچا اور ۱ میٹر [۳ فٹ] چوڑا ہے اور جو اس کی دونوں طرف کی دیواروں کے متوازی پھیلتا چلتا ہے اور اس کی پچھلی دیوار ان سے تقریباً ۵ میٹر [۱ فٹ] کی جگہ سے الگ ہوتی ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ پچھلی دیوار کے وسط میں یہ چبوترا ذرا مزید چوڑا ہو کر ۲.۷۴ میٹر [۸ فٹ] x ۱.۰۵ میٹر [۴ فٹ] منبر کی شکل پیدا کرتا ہے۔ مندر کے احاطے میں ایتھینا کا ایک بہت بڑا مجسمہ ملا تھا اور اسی طرح ہومر، ہیروڈوٹس اور دیگر معروف ادبی شخصیات کے نام کندہ مجسموں کے لیے بھی کچھ بنیادیں تھیں۔ ایتھینا کا مجسمہ، کھدائی کرنے والوں کے مطابق، منبر پر ایستادہ رہا ہوگا، اور باقی مجسمے چبوترے پر۔انہوں نے مزید استدلال کیا کہ اس پیمائش کا ایک شان و شوکت اور وجاہت والا کمرہ لائبریری کے صارفین کے استقبالیہ، مجالس، مجدالوں اور اسی طرح کے ایک حجرے کے طور پر کام کرتا رہا ہوگا۔ باقی تین کمرے چھوٹے اور تنگ ہیں، یہ کمرے تقریباً ۱۳.۴ میٹر لمبے اور ان کی چوڑائی ۷ سے ۱۰ میٹر [۲۲x۳۲ فٹ] تک ہوگی، اور ان کی شناخت انہوں نے ایک انبار کے طور پر کی ہے۔ دیواروں کو طومار رکھنے کے لیے لکڑی کے تختوں کے ساتھ قطار در قطار جوڑ دیا جاتا ہوگا۔ ہمارے پاس لائبریری کے سائز اور پیمائش کے حوالے سے تاریخی دستاویزات میں جو واحد حوالہ موجود ہے وہ انتونی کا کلیوپترا کو ۲۰ ہزار کتابوں کا تحفتا عطا کرنے والا قصہ ہے۔ ان تین کمروں کی پیمائش کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ کتابوں کی اس تعداد کو سمونے کے لیے یہ جگہ کافی تھی۔ (۴۹-۵۰)
بیرونی دیواروں اور تختوں کے درمیان ۲۰ انچ (۵۰ سینٹی میٹر) جگہ چھوڑ دی گئی تھی تاکہ ہوا کو گردش کرنے کی اجازت دی جا سکے، جس سے آبی نرسل اور چرمی کاغذ سے تیار کی گئی کتابوں کو ڈھلنے سے روکا جا سکے۔ انباروں میں دروازے ستون دار دالان کی طرف کھلتے تھے، جس سے سرپرستوں کو پڑھنے میں مزید آسانی اور آسائش مہیا کی جاتی کہ وہ کتابیں باہر دن کی روشنی میں لے جا سکیں۔ کتابوں کی نقلیں ستون دار دالان پر یا شاید مغرب کے سب سے بڑے کمرے میں بھی تیار کی گئی ہوں گی۔ ایشیائے کوچک میں کہیں اور سے ملنے والے شواہد کی بنیاد پر یہ تسلیم کیا گیا یے کہ سب سے زیادہ مقبول ادبی تصانیف ہومر کی ایلیاڈ اور اوڈیسی (زیادہ مانگ میں الیاڈ کے ساتھ) اور یوریپائڈس (کاسن، ۵۶) کے ادبی کام تھے۔ اس کا پتہ ان تصانیف کی موجودہ نقلوں کی تعداد اور قدیم مصنفین کی اپنی تخلیقات اور خطوط میں حوالہ جات سے لگایا گیا ہے۔
لائبریری کو بنیادی طور پر سلطنت التالیہ(اتلس سوم کے دور تک یا ممکنہ طور پر، ۱۳۳ قبل مسیح میں اس سلطنت کے اختتام تک) کے ذریعے مالی اعانت فراہم کی جاتی تھی جنہوں نے اس کے علاوہ صرف اپنے شہر میں ہی نہیں بلکہ دیگر جگہوں پر بھی خواندگی کی حوصلہ افزائی کی۔ کاسن لکھتے ہیں:
دولت التالیہ کے بادشاہان ثقافت کے حامیوں کے طور پر اپنی ساکھ کو جلا بخشنے کے لیے ہمیشہ بے چین اور کوشاں رہتے ہیں، ان کے خیراتی اداروں میں تعلیم کو شامل کیا جاتا ہے اور ایک اہم ترجیحی مقام دیا جاتا تھا۔ یومینس دوم نے روڈز کو اناج کی ایک بڑی رقم ایک ایسے فنڈ میں تبدیل کرنے کے لیے عطیہ کی "جس سے حاصل ہونے والا سود شہریوں کے بچوں کے اساتذہ اور اساتذہ کی تنخواہوں کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔" اس کے جانشین، اتلس دوم، نے ڈیلفی شہر کی طرف سے تعلیم کے حوالے سے مدد کی درخواست کے جواب میں، "ہمیشہ کے لیے ایک ابدی تحفہ مقرر ہونے کے لیے ایک رقم دی تاکہ اساتذہ کی تنخواہیں باقاعدگی سے ادا کی جا سکیں" … اس کے علاوہ بھی بہت سے مقامات ایسے ہیں جہاں اساتذہ کی حمایت کے لیے نجی اور سرکاری دونوں طرح کے فوائد کی تصدیق کرتے ہوئے کندہ کاری موجود ہے اور پائی گئی ہے۔ (۵۴)
لائبریری کے استعمال کی فیس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے اور نہ ہی اس بارے میں کوئی شرط ہے کہ کون اسے استعمال کر سکتا ہے۔ وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی تعلیم میں دولت التالیہ کے بادشاہان کی دلچسپی کے پیش نظر، یہ فرض کیا جاتا ہے کہ اس کے وسائل ہر اس شخص کو مفت دستیاب کرائے گئے جو ان سے استفادہ کرنا چاہتے تھے۔
اختتامیہ
لائبریری کے لیے مالی اعانت روم کی طرف سے اتلس سوم کے دور حکومت میں ممکنہ طور پر کی گئی ہو گی۔ اتلس سوم بادشاہ کی ذمہ داریوں میں بہت کم دلچسپی تھی، لیکن یہ خیال واضح نہیں ہے۔ اٹلس سوم کے اپنی وصیت میں یہ درج کیا کہ وہ اپنی سلطنت روم کے حوالے کرتا ہے تو رومیوں نے مالی امداد جاری رکھی جیسا کہ ٹراجن (دور حکومت ۹۸ تا ۱۱۷ عیسوی) اور ہیڈرئین (دور حکومت ۱۱۷ تا ۱۳۸ عیسوی) جیسے شہنشاہوں کی سرپرستی سے ظاہر ہوتا ہے۔ طبیب گیلن (حیات ۱۲۹ تا ۲۱۶ عیسوی)، جو پرگیمون میں پیدا ہوا تھا، سمرنا اور اسکندریہ میں اپنی تعلیم حاصل کرنے سے پہلے تقریباً یقینی طور پر لائبریری کو اپنی تعلیم کے لیے استعمال کرتا تھا۔
اگرچہ یہ واضح لگتا ہے کہ بازنطینی سلطنت کے ابتدائی سالوں میں لائبریری ابھی بھی کام کر رہی تھی، تاہم اس امر کی تفصیلات بہت کم ہیں۔ ۲۶۲ عیسوی کے زلزلے نے اسے باقی شہر کے ساتھ نقصان پہنچایا ہوگا اور پرگامون پر ۶۶۳ عیسوی میں مسلم عربوں نے اپنے قبضہ اختیار میں لے لیا تھا جنہوں نے روایت کے مطابق عمارت کو نقصان پہنچایا اور قدرے حد تک تباہ کیا تھا لیکن اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ پرگیمون ۱۳۰۰ عیسوی میں سلطنت عثمانیہ کے تحت ایک ترقی کرتا ہوا شہر تھا لیکن بعد میں ویرانی اس کا مقدر ٹھہری اور اس مقام پر، اگر لائبریری کی عمارت اب بھی موجود تھی، تو خیال کیا جاتا ہے (یا امید ہے) کتابیں کہیں اور لے جائی منتقل کر دی گئی تھیں۔
پرگیمون کے کھنڈرات کی پہلی بار ۱۸۶۹ میں جرمن انجینئر کارل ہیومن نے کھدائی کی تھی لیکن اس جگہ کی سنجیدہ طور پر کھدائی اور فہرست سازی کا کام ۱۸۷۸ تک شروع نہیں ہوا تھا۔ زیوس کی قربان گاہ (جسے پرگیمون قربان گاہ کے نام سے جانا جاتا ہے) اور بہت سے دوسرے نمونے عثمانیوں کے ہاتھوں ۔ سلطنت جرمنی کو فروخت کر دیے تھےاور نواردات کو برلن لے جایا گیا جہاں انہیں ۱۹۰۷ میں کھولے گئے پرگیمون میوزیم میں رکھا گیا تھا۔ ان نمونوں میں ایتھینا کا مجسمہ بھی ہے جو کبھی لائبریری میں ایستادہ تھا تھا۔ پرگامون کے قدیم ایکروپولیس پر لائبریری کا مقام موجودہ دور میں برگاما، ترکی سے باہر دیکھا جا سکتا ہے جہاں ستون دار دالان کے ٹوٹے ہوئے اور خستہ ستون اب بھی اس بنیاد کے درمیان ایستادہ ہیں جو کبھی قدیم دنیا کی عظیم ترین لائبریریوں میں سے ایک تھی۔