بغاوت سپاہیہ

10 دن باقی

تاریخ کی تعلیم میں سرمایہ کاری کریں

ہماری خیریٹی ورلڈ ہسٹری فاؤنڈیشن کی حمایت کرکے، آپ تاریخ کی تعلیم کے مستقبل میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ آپ کا عطیہ ہماری اگلی نسل کو اپنے آس پاس کی دنیا کو سمجھنے کے لئے درکار علم اور مہارت کے ساتھ بااختیار بنانے میں مدد کرتا ہے۔ ہر ایک کے لئے مفت، زیادہ قابل اعتماد تاریخی معلومات شائع کرنے کے لئے تیار نیا سال شروع کرنے میں ہماری مدد کریں۔
$3081 / $10000

تعریف

Mark Cartwright
کے ذریعہ، ترجمہ Zohaib Asif
18 October 2022 پر شائع ہوا 18 October 2022
دوسری زبانوں میں دستیاب: انگریزی, فرانسیسی, اطالوی, ہسپانوی
آرٹیکل پرنٹ کریں
The Recapture of Delhi (by Bequet Freres, Public Domain)
دہلی پر دوبارہ قبضہ کی تصویر کشی
Bequet Freres (Public Domain)

۱۸۵۷-۵۸ کا غدر (جسے بغاوت ہند،سپاہی بغاوت، فوجی بغاوت یا آزادی کی پہلی ہندوستانی جنگ کی اصطلاحات سے بھی یاد کیا جاتا ہے) ہندوستان میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی (ای آئی سی) کی جابرانہ حکومت کے خلاف ایک ناکام بغاوت تھی۔ ابتدائی طور پر یہ بغاوت ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میں موجود ہندوستانی سپاہیوں نے شروع کی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تحریک ایک وسیع پیمانے پر ملگ گیر بغاوت کی صورت اختیار کر گئی جس میں بعض علاقوں میں ہندوستانی آبادی کی ایک خطیر تعداد شامل تھی۔

اس بغاوت کو بالآخر کچل کر دیا گیا تھا، لیکن اس معرکے میں رستم کو بطور فاتح بھی بہت کچھ سہنا پڑا۔ کیونکہ برطانوی ریاست نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو تحلیل کر کے ہندوستان میں اپنے املاک کی حکمرانی سنبھال لی تھی اور اپنا اقتدار قائم کر لیا۔ وہ شکوہ شکایات اور گلے جو کہ اس بغاوت کا موجب بنے اور دونوں اطراف سے رقم ہونے والی ظلم و ستم کی داستانیں آنے والے اوقات میں ہند برطانوی تعلقات میں کبیدہ خاطری و شکر رنجی کی وجہ بنیں

’’غدر (میوٹنی)‘‘ کی وجہ تسمیہ

۱۸۵۷-۵۸ کے تکلیف دہ، دل گداز اور الم ناک واقعات کا نام امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ تغیرات کا شکار ہوتا رہا ہے کیونکہ نوآبادیاتی مورخین مزید غیر جانب داری کو عمل میں لانے کی خاطر ایک زیادہ غیر متعصب اصطلاح استعمال کرنے کی تجویز پیش کرتے ہیں، جنھیں بدلے میں قوم پرست ایجنڈے کے حامل مصنفین نے چیلنج کیا ہے، اور یہ شدت پسندانہ رویہ دونوں اطراف سے دیکھا گیا ہے۔ یہ امر مسلم ہے کہ ان واقعات میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے محض مظلوم، رنجیدہ اور محزون سپاہیوں سے کہیں زیادہ اہم عوامل بھی اس میں مضمر تھے اور اس لیے وہ ایک عام سپاہی بغاوت سے زیادہ وسیع تر اصطلاح ’’غدر‘‘ کو استعمال کرتے ہیں چونکہ اس میں سپاہیوں سے علاوہ عام عوام بھی شامل تھی۔ اہم علاقوں میں ہندوستان کی آبادی کا ایک اہم حصہ براہ راست ملوث تھا، اور اس لحاظ سے یہ ایک حقیقی عوامی بغاوت یا غدر تھا۔ علاوہ ازیں، یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ کئی ہندوستانی برطانوی حکومت اور سامراج سے وفادار رہے اور کئی شاہی ریاستیں بھی اس غدر میں غیر جانب دار رہیں

ان سپاہیوں کی کئی شکایات تھیں جنہیں انہوں نے خود پر ظلم تصور کیا اور پر امن احتجاج کے باوجود ان شکایات کا ازالہ نہیں کیا گیا.

زیادہ تر مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ ۱۸۵۷-۵۸ کے واقعات کو صحیح معنوں میں "آزادی کی قومی تحریک" کے طور پر بیان نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس وقت ہندوستان میں کوئی واحد قوم نہیں تھی۔ نہ ہی مظاہرین کے مختلف گروہوں کے درمیان کوئی حقیقی ہم آہنگی موجود تھی جن کے تمام مقاصد مختلف تھے، یہاں تک کہ بہت سے لوگوں کو سامجراج مخالف قرار دیا جائے, پھر بھی انہیں کسی ایک مقصد کے لیے لڑتے ہوئے نہیں دیکھا جا سکتا۔ دوسری طرف، اس غدر میں شامل افراد تمام شعبہ ہائے زندگی سے منسلک تھے، اور اس لحاظ سے، بغاوت کا ایک 'قومی' کردار تھا۔ ان تمام عوام کو مد نظر رکھا جائے تو ۱۸۵۷-۵۸ کے واقعات کو منسوب کرنے کی بحث ہندوستان میں ان کی ابتدا سے قبل، ان کے دوران میں، اور کے تھم جانے کے طویل عرصے کے بعد تک رہنے والی پیچیدہ کشیدگیوں کا عندیہ ہے۔ جیسا کہ مورخ آئی بیرو نے اس بحث کا ان الفاظ میں خلاصہ کیا ہے: "بغاوت/غدر کیا تھی اور ہندوستانیوں اور برطانوی سامراج دونوں کے لیے اس کی کیا اہمیت تھی، یہ بحث جنوبی ایشیائی اور برطانوی شاہی تاریخ کا ایک عجیب معمہ رہی ہے" (۱۱۶)۔

East India Company Trooper & Sepoy
ایسٹ انڈیا کمپنی کا گھڑ سوار اور سپاہی
Unknown Artist (Public Domain)

ایسٹ انڈیا کمپنی کے سپاہی

اگرچہ ایسٹ انڈیا کمپنی ایک تجارتی کمپنی کے طور پر قائم ہوئی تھی، اٹھارویں صدی کے وسط سے، اس ادارے نے اپنے مفادات کے تحفظ اور اپنے علاقائی املاک کو وسعت دینے کے لیے اپنی فوج کا استعمال کیا۔ ۱۷۶۵ سے، صرف برطانوی افراد ہی ایسٹ انڈیا کمپنی کی مسلح افواج میں افسر کے عہدے پر فائز ہو سکتے تھے، لیکن عام سپاہیوں کی فوج کی اکثریت ہندوستانی افراد پر مشتمل تھی۔ ان ہندوستانی فوجیوں کو ابتدا میں چپراسی اور پھر سے پوئے کے نام سے جانا جاتا تھا جو کہ فارسی اصطلاح سپاہی کی ایک مسخ شدہ شکل تھی۔ ان ہندوستانی سپاہیوں کی تعداد یورپی فوجیوں سے کہیں زیادہ تھی۔ انیسویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میں برطانویوں کے مقابلے میں ہندوستانی فوجیوں کا اوسط تناسب ۷ تا ۱ کے قریب تھا۔ بہت سے ہندوستانیوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی میں شمولیت اختیار کی تاکہ بہتر تنخواہ حاصل کی جا سکے اور روایتی ہندوستانی معاشرے میں اپنی حیثیت کو بہتر بنانے کے مواقع سے مستفید ہوا جا سکے۔ اتنی بڑی تعداد میں ہندوستانی فوجیوں پر انحصار کمپنی کے لیے ایک خطرہ تھا، لیکن اسے برطانوی فوجیوں کو بھرتی کرنے اور تجربہ کار اور مشاق فوجیوں کو باقاعدہ برطانوی فوج سے الگ ہونے پر آمادہ کرنے میں انہیں کثیر التعداد مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ہندوستانی سپاہی اچھی طرح سے تربیت یافتہ اور اچھی طرح سے لیس تھے، اور انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو پورے ہندوستان میں اپنا کنٹرول و اختیار بڑھانے میں مدد کی، خاص طور پر چار اینگلو میسور جنگوں (۱۷۶۷ تا ۱۷۹۹) اور دو اینگلو-سکھ جنگوں (۱۸۴۵ تا ۱۸۴۹) کے بعد، سپاہی بغاوت کے وقت، کمپنی نے تقریباً ۴۵،۰۰۰ برطانوی فوجیوں اور ۲۳۰،۰۰۰ سے زیادہ سپاہیوں کو بھرتی کیا۔

بغاوت کی وجوہات

سپاہی بغاوت یا غدر کی بنیادی وجوہات کا خلاصہ یوں کیا جا سکتا ہے:

  • سپاہی برطانوی فوجیوں کے مقابلے تنخواہ میں عدم مساوات سے ناخوش اور ملول تھے۔ اس سے ان میں احساس کمتری پروان چڑھنا شروع ہو گیا۔
  • ان سپاہیوں کو شک تھا کہ رائفل کے کارتوس کی تیاری میں حرام جانوروں کی چربی کا استعمال کیا جاتا ہے اور یہ جانور ایسے تھے جنہیں وہ اپنے مذہبی عقائد کے بل بوتے پر چھو نہیں سکتے تھے۔
  • یہ سپاہی سزمین ہندوستان کی حدود سے باہر برطانوی ریاست کے لیے خدمات انجام دینے پر آمادہ نہیں تھے۔
  • ہندوستانی شہزادے اپنی ریاستیں کھو چکے تھے یا انہیں ایسٹ انڈیا کمپنی کو اعلیٰ تحفظ کی زد میں خراج ادا کرنی پڑا تھا۔
  • ہندوستانی باشندوں پر ضرورت سے زیادہ محصول اور لگان کا لگایا جانا
  • اس قسم کے خدشات کہ روایتی ہندوستانی ثقافتی رسومات خطرے میں ہیں اور انگریز معاشرت کا اختیار ہندوستانی سماج کا شیرازہ بکھیر دے گا
  • ایسٹ انڈیا کمپنی کی درآمدات سے ہندوستانی صنعت کاری کے لیے پیدا ہونے والے خدشات
  • کمپنی سامراج کا زعم باطل اور ادارتی نسل پرستانہ رویہ

ان ہندوستانی سپاہیوں کو کئی اندیشے لاحق تھے جنہیں ان کے مطابق پر امن احتجاج کے باوجود انگریز حکومت کی جانب سے نظر انداز کیا جا رہا تھا۔ ۱۸۰۶ ے بعد چھوٹے پیمانے پر کئی بغاوتیں ہوتی رہیں ، لیکن ان کو بہت بے رحمی سے کچل کر دیا گیا اور فرو کر دیا گیا۔ یہ ہندوستانی سپاہی قطعاََ خوش نہیں تھے کہ انہیں ایسٹ انڈیا کمپنی کے برطانوی فوجی سپاہیوں کی نسبت بہت کم تنخواہ ملتی تھی۔ مزید برآں کہ ۵۰ سال سے زائد عرصے سے ان ہندوستانی سپاہیوں کی اجرت میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا تھا، یعنی ۱۸۰۰ کے بعد سے حقیقی معنوں میں ان کی تنخواہ منڈی کے لین دین کے مطابق اپنی آدھی وقعت کھو چکی تھی۔ ہندوستانی سپاہی ہندوستان کی حدود سے پار تاج برطانیہ کے لیے اپنی خدمات انجام کے لیے خوش تھے اور نہ ہی اس ادارتی نسل پرستانہ رویہ سے جو کہ رائج الوقت تھا اور جس نے ان ہندوستانی سپاہیوں کو فوجی عہدوں کے لحاظ سے ترقی کے کوئی مواقع فراہم کیے جانے سے ہاتھ پیچھے کیا ہوا تھا۔ ان میں سے موخر الذکر حالت میں ہندو سپاہیوں کو ’’استھان‘‘ کی رسم ادا کرنا ہوتی تھی جو کہ ان کے لیے مالی طور پر بہت مہنگی ثابت ہوتی تھی، یہ دیکھتے ہوئے کہ ان کی تنخواہ بھی بہت قلیل اور محدود تھی۔ ہند برطانوی تعلقات کی کشیدگی میں آخری طور پر لیکن اہم طور پر کردار ادا کرنے والا عنصر اینفیلڈ رائفلوں (جو کہ ہر فوجی کے لیے استعمال کرنا ناگزیر ہوتی تھی) کے لئے چربی والے کارتوس کا تعارف تھا۔ سور یا گائے جیسے جانوروں کی چربی کی چکنائی کے استعمال نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے عقائد کو ٹھیس پہنچائی اور اس سے ان کی دلآزاری ہوئی کیونکہ ان کارتوسوں کو قابل استعمال بنانے کے لیے منہ کا استعمال کرنا پڑتا تھا (درحقیقت یہ چکنائی اور چربی گائے یا سور دونوں میں سے کسی جانور کی نہیں تھی، یہ محض ایک افواہ تھی)۔ خیر، کارتوس کی حرمت کی افواہ نے پہلے ہی رنجیدہ سپاہیوں کے لیے جلتی پر تیل کا کام کیا، اور اس ایک افواہ سے مزید کئی افواہوں کا جنم ہوتا چلا گیا جیسا کہ ان ہندوستانی سپاہیوں کے آٹے میں گائے اور سور کی ہڈیوں کی ملاوٹ کی جاتی ہے یا یہ کہ ان کے نمک کو جان بوجھ کر سور اور گائے کے خون سے آلودہ کیا جا رہا تھا (یہ حقیقت ہے کہ نمک کی رنگت سرخ ہوتی تھی، لیکن یہ رنگت نقل و حمل کے لیے استعمال ہونے والی بوریوں کا نتیجہ تھی). مختصر یہ عام سپاہیوں سے اعلی حکام و افسران بالا کی علیحدگی و روگردانی رویہ اور ان دونوں گروہوں کے مابین مراسلات کی کمی نے چنگاریوں کو مزید سلگایا اور ایک ایسی آگ کو تیار کیا جو کہ آنے والے وقتوں میں پورے ہندوستان کو اپنی لپیٹ میں لینے والی تھی

The Sepoy Mutiny of 1857
۱۸۵۷ کی بغاوت سپاہیہ/غدر
Simeon Netchev (CC BY-NC-ND)

ان ہندوستانی سپاہیوں کے ساتھ رواں ناروا سلوک کے علاوہ دیگر کئی وجوہات بھی کبیدہ خاطری اور دل گیری کا باعث بنیں۔ ۱۷۵۸ میں مغل سلطنت کا نیّر درخشاں غروب ہو گیا۔ سلطنت کے انہدام سے قبل ہی یہ اپنے زوال کی جانب رفتہ رفتہ گامزن تھی اور ہندوستان میں اس کی حکومت و اختیار کے مظہر ادارے انحطاط کا شکار ہو گئے۔ بہت سی آزاد ہندوستانی شاہی ریاستیں ایسٹ انڈیا کمپنی، جو کہ کئی لحاظ سے مغل سلطنت کی حقییقی جانشین اور وارث تھی، سے بہت زیادہ حد تک خوش اور راضی تھے۔ کچھ شہزادوں نے اپنی ریاستوں میں اندرونی بغاوتوں کو کچلنے کے لیے اور اپنے قریبی ریاستوں پر دھاوا بول کر انہیں زیر نگیں کرنے کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج کی خدمات حاصل کی، لیکن چند ایک ریاستیں ایسٹ انڈیا کمپنی کو بھتہ خوری سے مماثل نظام کے تحت ’’خراج تحفظ‘‘ ادا کرنے کی پابند تھیں

بنگالی افواج کی ۷۴ میں سے ۴۵ رجمنٹوں نے اعلان بغاوت کر دیا تھا.

تنازعہ کی ایک اور سنگین وجہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی شاہی ریاستوں کو اپنی مرضی کے تحت زیر اختیار کرنے کی پالیسی تھی۔ ہندوستانی شہزادوں کو یہ اجازت نہیں دی گئی کہ وہ اپنی ریاستوں کو کسی ایک وارث کی عدم موجودگی میں کسی لے پالک اور متبنی کے حوالے کر کے اسے اپنا جانشین مقرر کر دیں، اس نظریہ کو ’’نظریہ عدم استحقاق‘‘ کہا گیا اور یہ ان شاہی ریاستوں پر اپنا قبضہ قائم کرنے کا ایک ذریعہ ثابت ہوا، خاص طور پر ۱۸۴۸ کے بعد جب مارکی آف ڈلہوزی (۱۸۱۲ تا ۱۸۶۰) ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر جنرل بنے۔ . یہاں تک کہ ناقص حکمرانی کے الزامات کی وجہ سے کچھ شہزادے اپنا تخت کھو بیٹھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی جارحانہ توسیع پسندانہ پالیسیوں کی وجہ سے کئی شاہی ریاستیں فعال طور پر سپاہی بغاوت میں شامل ہوئیں اور دیگر غیر جانبدار رہہیں

شاہی ریاستوں کی عام جنتا کو بھی نقصان اٹھانا پڑا۔ ۱۸۹۳ کے بنگال پرمیننٹ سیٹلمنٹ (بنگل مستقل نوآبادیاتی تصفیہ) کے بعد سے ایسٹ انڈیا کمپنی بحران و قحط کے دنوں میں بھی، محکوم عوام سے محصول کی فراہمی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کر رہی تھی۔ یہ عام ہندوستانی برطانوی نظام انصاف اور پولیس کے عہدے سے قبعاََ خوش نہیں تھے، جس نے ان پر یہ ظالمانہ مالی ذمہ داریاں عائد کی تھیں۔ کچھ شہزادوں کی برطرفی کے ساتھ ہی عام سپاہیوں اور بکتر بندوں کے لیے روزگار کی تمام راہیں مسدود ہو چکی تھیں۔ ہندوستانی کاریگروں کو شمالی انگلستان میں فعال صنعت کاری کے کارخانوں میں تیار ہونے والے پارچہ جات، جنہیں ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں درآمد کرتی تھیں، سے مسابقت کا سامنا تھا اور ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی تجارتی اجارہ داری سے نیل اور افیون کے کاروبار کو اپنی مرضی کا تابع بنا لیا

British Soldiers Looting during the Sepoy Mutiny
غدر کے دوران میں برطاونی افواج لوٹ کھسوٹ میں مصروف
Unknown Artist (Public Domain)

لارڈ ولیم بینٹنک (۱۷۷۴ تا ۱۸۳۹)، جو کہ ۱۸۲۸ سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر جنرل کے فرائض انجام دیتے رہے، اپنی سماجی اصلاحات کے لیے بے حد مشہور تھے اور ۱۸۲۹ میں ستی جیسی قبیح رسم کے خاتمے اور بیخ کنی کے لیے آج بھی جانے جاتے ہیں۔۔ ستی ایک ہندو دھرم میں ایک بیوہ کے لیے اپنے مرحوم خاوند کی چِتا پر خود کو بھی اس کے ساتھ ہی جلا کر بھسم کرنے کا رواج ہے۔ ایسا ممکن ہے کہ اس رسم کے خاتمے کو دیکھ کر کئی لوگ پھولے نہ سمائے ہوں، لیکن کچھ ایسے بھی تھی جن کے سینے پر سانپ لوٹ رہے تھے چونکہ انہیں یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی ہندوستان کی اس ’’مغرب کاری‘‘ کے سلسلے مٰن ان کی دیگر ثقافتی رسومات آہستہ آہستہ اس عمل کی بھینٹ چڑھتی جائیں گی اور ہندوستانی ثقافت امتداد زمانہ کے ساتھ ساتھ ماند ہو جائے گی۔ ہندوستانیوں کو انگریزی تعلیم دینے اور انہیں برطانوی انتظامیہ کے نچلے درجوں میں ایک غلامانہ زندگی کے لیے تیار کرنے کی وکالت ایسٹ انڈیا کمپنی کونسل کے رکن تھامس بیبنگٹن میکالے (۱۸۰۰ تا ۱۸۵۹) جیسی شخصیات نے کی تھی، جنہوں نے ہندوستانی کلاسیکی نظام تعلیم کو تذلیل و تحقیر کا نشانہ بنایا تھا۔ . مسیحی مبلغین کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے ۱۸۳۳ سے ہندوستان میں داخلے اور تبلیغ کی اجازت دی تھی، اور ان کی موجودگی ہندوستانی ثقافت پر ایک اور کھرا حملہ تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی ادارتی نسل پرستی اور انگریز حکام کی کج خُلقی و ظلم و تعدی تعلقات میں برداشتہ خاطری کی ایسی وجوہات تھیں جنہیں قطعاََ بالائے طاق نہیں رکھا جا سکتا تھا

بغاوت کا پھیلاؤ

وہ ابتدائی چنگاری جس نے ہندوستانی سپاہیوں کو بھڑکایا وہ مارچ ۱۸۵۷ میں ایک ہندوستانی سپاہی منگل پانڈے کی سزا تھی۔ پانڈے نے کلکتہ کے قریب ایک ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک یورپی افسر کو زخمی کر دیا تھا، اور اس کے جرم کی پاداش میں اسے پھانسی دے دی گئی۔ یہ شاید انصاف کا معاملہ تھا، لیکن پانڈے کی پوری سپاہی کمپنی کو کوڑے مارنے کے فیصلے سے غم و غصہ کی ایک لہر دوڑ گئی۔ پھر، ۱۰ مئی ۱۸۵۷ کو، میرٹھ میں ایسٹ انڈیا کمپنی سپاہیوں نے کمپنی حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھا لئے۔ یہ فعل چکنائی والے اینفیلڈ کارتوس استعمال کرنے سے انکار کرنے پر ۸۵ ساتھی سپاہیوں کو دس سال قید کی سزا کے خلاف احتجاج کی ایک قسم تھا۔ بغاوت کرنے والوں نے اپنے انگریز افسروں کو مار ڈالا اور پھر ہنگامہ آرائی کی۔ ایک باغی نے اپنے افسوس کا اظہار ان الفاظ میں کیا: "میں ایک اچھا سپاہی تھا، اور انگریز حکومت کے لیے خدمات انجام دینے کے لیے کہیں بھی جانے کے لیے تیار تھا، لیکن میں اپنے مذہب کو ترک کرنے کے لیے قطعاََ تیار نہ تھا" (جیمز، ۲۳۹)۔ باغیوں نے اگلے روز ۱۱ مئی کو قریبی دہلی پر قبضہ کر لیا اور یورپی مردوں، عورتوں اور بچوں کے ساتھ ساتھ عیسائیت اختیار کرنے والے ہندوستانیوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی کی قیادت اس قسم کے بلوے اور ہندوستانی سپاہیوں کی بغاوت کے لیے تیار نہیں تھی، اور اس بغاوت میں شامل سر کش اپنے قبر میں لات رکھے مغل شہنشاہ بہادر شاہ دوم (۱۷۷۵ تا ۱۸۶۲) کو اس بغاوت میں اپنے سربراہ کے طور پر چن لیا۔ پھر آہستہ آہستہ اس بغاوت کی آگ بے ساختہ پورے ہندوستان میں پھیل گئی، جس میں نہ صرف سپاہی بلکہ زمیندار، تاجر، اور ہندو اور مسلم دونوں عقائد کے کسان شانہ بشانہ شامل رہے اور اپنا اپنا حصہ ڈالتے رہے۔ بنگال وہ علاقہ تھا جہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کو حقیقی مسائل درپیش تھے۔ بنگالی افواج کی ۷۴ میں سے ۴۵ رجمنٹوں نے اعلان بغاوت کر دیا تھا۔ نتیجتاََ مزید حزم و احتیاط کو برتتے ہوئے، باقی ۲۹ سپاہی رجمنٹوں میں سے ۲۴ کو ایسٹ انڈیا کمپنی نے منتشر کر دیا یا غیر مسلح۔ بنگال کی رسالہ رجمنٹ نے بھی بغاوت کر دی۔ خوش قسمتی سے انگریزوں کے لیے، ایسٹ انڈیا کمپنی کے دیگر دو اہم مراکز - مدراس اور بمبئی (ممبئی) - میں ہنوز ذاتی ملکیت والی ​​فوج وفادار رہی، اور بعد میں صرف دو رجمنٹوں نے بغاوت کی۔

British Executing Prisoners Using Cannons
برطانوی افواج توپوں کا استعمال کرتے ہوئے عام عوام کو ابری نیند سلاتے ہوئے
Vasily Vereshchagin (Public Domain)

ایسٹ انڈیا کمپنی کی جانب سے غیر منصفانہ سلوک کو دیکھتے ہوئے چند ایک رنجیدہ و ملول شاہزادوں نے ہندوستانی سپاہیوں کے حقوق کی آواز اٹھائی۔ جھانسی کی ملکہ رانی لکشمی بائی (۱۸۳۵ تا ۱۸۵۸) اور نانا صاحب، جو کہ آئندہ دنوں میں مراٹھوں کے پیشوا بننے جا رہے تھے اور اس عہدے کے دعوے دار تھے، ان حکمرانوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔ کچھ شہزادے ایسٹ انڈیا کمپنی کے وفادار رہے جیسے گوالیار اور جودھ پور کے مہاراجہ (حالانکہ ان کے کچھ فوجیوں نے بغاوت کی)۔ اسی وقت، تشدد اور وسیع پیمانے پر لوٹ مار اور بھتہ خوری نے بہت سے خوشحال ہندوستانیوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کی حمایت میں رہیں بجائے اس کے کہ وہ اپنے کاروبار کو تہہ و بالا ہوتے اور قصبوں کو مکمل افراتفری کا شکار ہوتے دیکھیں۔ ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے ہمیشہ ہی غیر جانبدار رہنے کی کوشش کی۔

بغاوت کی آگ جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور غیر معمولی رفتار کے ساتھ پورے ہندوستان کو اپنی آغوش میں لپیٹتی گئی، اور بیشتر عوامل و عناصر جو پہلے ہی سرگرم تھے، اس بغاوت کے شعلوں کو مزید بھڑکاتے رہے۔ ان باغیوں کے پاس کھونے کو کچھ نہ تھا کیونکہ وہ اسی انگریز سرکار کی وجہ سے مفلوک الحالی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ شمالی اور وسطی ہندوستان جو کہ گنگا جمنا اور نرمدا کی حسین و جمیل اور زرخیز وادیوں کا مخزن تھا، آگ میں جھلس رہا تھا اور خون میں لت پت تھا۔ ان دنگوں کو دیکھتے ہوئے کمپنی راج نے اپنی وفادار افواج کے دستوں کو متحرک کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بنارس، گوالیار، جھانسی، کامپور اور لکھنؤ میں شدید لڑائی چھڑ گئی اور گھمسان کا رن پڑا۔ جبکہ آسام، راجستھان اور پنجاب میں بغاوت کی شدت بنسبت کم تھی۔ ان باغیوں کا قلع قمع کرنے کے لیے، ایسٹ انڈیا کمپنی نے اب برطانوی فوج کی باقاعدہ رجمنٹوں کو ملازمت دینا شروع کر دی، اور انہیں وفادار سکھ فوجیوں اور نیپالی گورکھوں جیسے نئے اتحادیوں کے ساتھ بھرتی کیا تھا۔ چھ دن کی وحشیانہ لڑائی کے بعد ۱۸ ستمبر ۱۸۵۷ کو دہلی پر دوبارہ قبضہ کر لیا گیا، اور پھر مارچ ۱۸۵۸ میں کانپور اور لکھنؤ پر بھی اختیار جما لیا گیا

ان بغاوتوں اور دنگوں کو بالآخر ۱۸۵۸ کے موسم بہار تک دو وجوہات کی بنا پر کچل دیا گیا تھا: ایک یہ تو کہ باغیوں کے مقابلے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے وسائل بہت زیادہ اعلی نوعیت کے تھے اور دوم یہ کہ احکامات اور مطالبات کے معاملے میں باغیوں کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان تھا۔ باغیوں میں شامل مختلف گروہوں کے مختلف اور متنوع مطالبات تھے اور غدر کی آڑ میںن یہ مختلف گروہ، گو کہ ان میں مذہبی تفریق نہیں تھی، بڑے سے بڑے مطالبات جیسا کہ مغل شاہی کی بحالی سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے اور معمولی مطالبات جیسا کہ کسی عام محصولی محتسب کے خلاف نفرت کا زہر اگلنے اور اسے ناکوں چنے چبوانے تک کے مطالبات کو منوانا چاہتے تھے ۔ یہ مختلف گروہ اس نظریہ پر تو متفق تھے کہ انگریز سرکار کو انگلستان کی راہ دکھائی جائے لیکن وہ اس بات پر قطعاََ متفق نہیں ہو سکے کہ انگریز راج کی جگہ ان میں سے کون لے گا۔ آخر کار، یورپ سے بھیجے گئے ۴۰،۰۰۰ برطانوی فوجیوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے حق میں اس خونی اور بربرانہ تنازعہ کا فیصلہ کیا۔ جون ۱۸۵۸ میں، ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر جنرل لارڈ کیننگ نے اعلان کیا کہ امن و امان اور آشتی کی بحالی ہو گئی ہے اور ملکہ وکٹوریہ نے باغیوں کے لیے عام معافی، ہندوستانی شہزادوں کے حقوق کی ضمانت اور سب کے لیے مذہبی رواداری کا وعدہ کیا۔

عواقب و نتائج

دونوں اطراف سے جانی نقصان بہت زیادہ ہوا، لیکن مورخ بیرو کے بیان کے مطابق، موت کے گھاٹ اتارے جانے والے ہندوستانی افراد کی تعداد انگریزوں کی نسبت بہت زیادہ تھی۔ ملاحظہ ہو:

۲۶۰۰ برطانوی فوجی اور ۱۵۷ افسران ہلاک ہوئے۔ مزید ۸۰۰۰ ہیٹ اسٹروک (استزاف حرارت اور لو لگنا) اور بیماری سے مر گئے، جبکہ ۳۰۰۰ شدید زخمی ہوئے۔ جنگ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے قحط سے ہندوستانی اموات ۸۰۰،۰۰۰ افراد تک پہنچ سکتی ہیں۔

(۱۱۵)

Justice - Punch Cartoon
جسٹس - پنچ کارٹون
John Tenniel (Public Domain)

شہروں اور دیہی علاقوں میں فوجی اہلکاروں اور عام شہریوں کے خلاف دونوں اطراف سے مظالم اور قتل عام کیا گیا اور کشت و خون میں عام عوام نہائے گئے۔ یورپی اور ہندوستانی مردوں، عورتوں، بچوں اور تمام مذاہب کے لوگوں کے خلاف غیر قانونی قید، تشدد، عصمت دری، بغیر کسی مقدمے کے پھانسی، اور قتل کے ان گنت دستاویزی مقدمات ہیں۔ اس خون کی ہولی آئندہ دنوں میں ہند برطانوی تعلقات کو مزید آلودہ کرنے کا باعث بنا. اس غدر و بلوے کے نتیجے میں، ایسٹ انڈیا کمپنی نے بغاوت کے سرخیلوں کے ساتھ شقاوت قلبی و جور و جفا کا مظاہرہ کیا اور آنے والے وقتوں کے لیے انہیں عبرت کا نشان بنایا۔ بہادر شاہ ثانی کو برما جلاوطن کر دیا گیا لیکن اس کے بیٹوں کو پھانسی دے دی گئی۔ ملکہ رانی لکشمی بائی نے جنگ کے دوران میں ہی داعی اجل کو لبیک کہا، اور ایک اور ممتاز و مشہور باغی رہنما، ایک ایسا راہنما جس نے انگریز سرکار کی ناک میں دم کیے رکھا، مراٹھا تانتیا ٹوپے کو بھی پھانسی دے کر انگریز سرکار نے سکون کا سانس لیا۔ انگریزوں نےغدر کا مجرم ہندوؤں کی نسبت مسلمانوں کو ٹھہرایا اور مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک برقرار رکھا، نیز یہ کہ ان کے حوالے سے ظلم و ستم کی داستانیں رقم کی گئیں۔ لوٹ مار، بے ضابطہ عدالتیں اور پھانسوں کے واقعات اس قدر زیادہ تھےکہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائریکٹرز کو بھی اپنے ملازمین کو مزید تحمل کا مظاہرہ کرنے کی قرارداد جاری کرنی پڑی۔ مورخ ویلیم ڈیلریمپل نے ہزاروں انتقامی پھانسیوں اور کشت و خون کو "برطانوی استعمار کی پوری تاریخ میں شاید سب سے خونی واقعہ" قرار دیا۔ (۳۹۱)

تاج برطانیہ، جو پہلے ہی ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز حکمرانی سے متاثر نہیں تھی، نے ۲ اگست ۱۸۵۸ کو ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے حکومت کو تحلیل کر کے اس کے زیر اختیار علاقوں پر مکمل قبضہ کر لیا۔ اور نظم و ضبط کے اس طویل سلسلے کی آخری کڑی کو عمل میں لایا۔ جہاں تک پارلیمنٹ اور مقننہ کا تعلق ہے، ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس نہ تو اختیار تھا اور نہ ہی اہلیت کہ وہ برطانوی عوام کے نام پر پوری دنیا میں زمین کو سرخ رنگ سے رنگتی رہے۔ غدر کو اس انتباہ کے طور پر متصور کیا گیا کہ ایک تجارتی کمپنی جو کہ اپنے حصہ داروں کے علاوہ کسی کو جوابدہ نہیں تھی، رضامندی، سمجھوتہ، یا انصاف کے نام پر عوام پر حکومت نہ ہی کر سکتی ہے اور نہ ہی کرے گی

ایسٹ انڈیا کمپنی کی بحریہ کو تحلیل کر دیا گیا، اور جون ۱۸۶۲ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی نو یورپی رجمنٹوں پر قبضہ کر لیا گیا، حالانکہ ۱۸۹۵ تک ایسا ایسٹ انڈیا کمپنی کی بچ جانے والی مختلف صدارتی فوجیں بالآخر ایک برطانوی ہندوستانی فوج میں ملحق ہو گئیں۔ اور اس نئی فوج میں اپنے پیشرو کے مقابلے میں برطانوی النسل فوجیوں کا تناسب بہت زیادہ تھا۔

غدر نے انگریزوں کے زنگ آلود دماغوں کو یہ سوچنے پر قطعاََ مجبور نہ کیا کہ وہ کس برطے پر ہندوستان کو اپنی نوآبادی تسلیم کرتے ہیں اور اس پر افسر شاہانہ طریق سے حکومت کرنے کا ان کے پاس کیا جواز ہے۔ لیکن غدر نے انہیں ان غلطیوں کو تلاش کرنے پر ضرور مجبور کیا جو ان کے خیال میں انہوں نے اپنے نوآبادیاتی دور میں کی تھیں۔ اور اس طرح وہ عہد شروع ہوا جسے عام طور پر برطانوی راج (حکومت) کہا جاتا ہے۔ یکم جون ۱۸۷۴ کو پارلیمنٹ نے باقاعدہ طور پر ایسٹ انڈیا کمپنی کو تحلیل کر دیا۔ اور پھر آئندہ دنوں میں ہندوستانی عوام نے دیکھا کہ ان پر اب ایک ظالم کی جگہ دوسرے ظالم نے لے لی ہے، شاید تبدل ہوا ہی نہیں تھا۔ یہ وہی پرانا ظالم و جابر حاکم ہی تھا لیکن ایک نیا نقاب اوڑھے ہوئے اور اپنے اوپر ملمع چڑھائے ہوئے تھا۔ ۱۸۷۷ میں، ملکہ وکٹوریہ کو ہندوستان کی مہارانی قرار دیا گیا، اور برطانوی راج 1947 تک جاری رہا جب ہندوستان (اور پاکستان) نے ان سے آزادی حاصل کی۔ اور یہ آزادی کی تحریک نے قریباََ ایک صدی قبل وقوع پذیر ہونے والے غدر سے بہت زیادہ حد تک متاثر تھی.

سوالات اور جوابات

بغاوت سپاہیہ کیا تھی؟

سپاہی بغاوت یا ہندوستانی بغاوت ۱۸۵۷ تا ۱۸۵۸ تک جاری رہنے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کی برطانوی حکومت کے خلاف ہندوستان میں ایک ناکام بغاوت تھی۔

بغاوت سپاہیہ کی بنیادی وجہ کیا تھی؟

سپاہی بغاوت کئی عوامل کی وجہ سے وقوع پذیر ہوئی: سپاہی (ہندوستانی سپاہی) تنخواہ کی کمی اور ان پر نافذ کی جانی والے طرح طرح کی شرائط سے ناخوش اور دلبرداشتہ تھے۔ ایک اور وجہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکمرانی سے شاہی ریاستوں کے ناراض شہزادے تھے، اورتیسری اہم وجہ کسانوں پر اضافی ٹیکس و محصول لگانا تھی۔

بغاوت سپاہیہ شروع کس نے کی؟

ہندوستان میں ۱۸۵۷ تا ۱۸۵۸ جاری رہنے والی سپاہی بغاوت ہندوستانی ایسٹ انڈیا کمپنی کے سپاہیوں (سپاہی) نے اپنی تنخواہ کی کمی اور ان کے ساتھ ادارہ جاتی امتیاز و ناروا سلوک اور ان کے مذہبی عقائد کی بنیاد پر کمپنی حکومت کے نظر اندازانہ رویے کی وجہ سے شروع کی تھی۔ ہندوستان کے مختلف حصوں میں سپاہیوں نے حملہ کرکے اپنے افسران کو ہلاک کیا اور پھر دہلی جیسے بعض شہروں پر قبضہ کرلیا۔

برطانویوں نے غدر کا خاتمہ کیسے کیا؟

برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ۱۸۵۷ تا ۱۸۵۸ جاری رہنے والی سپاہی بغاوت کے باغیوں کو شکست دے کر بغاوت کو کچل دیا کیونکہ ان کے پاس وسائل بہت زیادہ تھے، ان کے بہت سے ہندوستانی فوجی (خاص طور پر سکھ) وفادار رہے، اور یہ کہ اس بغاوت کو کچلنے کے لیے۴۰،۰۰۰ برطانوی فوجیوں کو یورپ سےہندوستان بھیجا گیا

مترجم کے بارے میں

Zohaib Asif
جی میں زوہیب ہوں، زبان کا جادوگر اور ذہن کا مورخ۔ وقت کی چابی موڑنے والا، ماضی کے دریچوں میں جھانکنے والا الفاظ کا سنار۔ زبان اور تاریخ کے اس سفر پر میرا ساتھ ضرور دیجیے کیوں کہ اکھٹے ہم تاریخ کے سر بستہ رازوں سے پردہ ہٹائیں گے اور ساتھ ساتھ اٹھکیلیاں بھی کریں گے

مصنف کے بارے میں

Mark Cartwright
مارک اٹلی کا ایک تاریخ پر لکھنے والی لکھاری ہے۔ ان کی دلچسپی کا مرکز کوزہ گری، فن تعمیر، عالمی اساطیری روایات اور ایسے خیالات تلاش کرنا ہے جو کہ مخلتلف تہذیبوں میں ایک جیسے ہیں۔ ان کی سیاسی فلسفہ میں ماسٹر ڈگری ہے اور وہ گھروں کے عالمی دائرۃ المعارف میں طباعت کے ڈائریکٹر ہیں۔

اس کام کا حوالہ دیں

اے پی اے اسٹائل

Cartwright, M. (2022, October 18). بغاوت سپاہیہ [Sepoy Mutiny]. (Z. Asif, مترجم). World History Encyclopedia. سے حاصل ہوا https://www.worldhistory.org/trans/ur/1-21108/

شکاگو سٹائل

Cartwright, Mark. "بغاوت سپاہیہ." ترجمہ کردہ Zohaib Asif. World History Encyclopedia. آخری ترمیم October 18, 2022. https://www.worldhistory.org/trans/ur/1-21108/.

ایم ایل اے سٹائل

Cartwright, Mark. "بغاوت سپاہیہ." ترجمہ کردہ Zohaib Asif. World History Encyclopedia. World History Encyclopedia, 18 Oct 2022. ویب. 21 Dec 2024.