نپولین بوناپارتے

10 دن باقی

تاریخ کی تعلیم میں سرمایہ کاری کریں

ہماری خیریٹی ورلڈ ہسٹری فاؤنڈیشن کی حمایت کرکے، آپ تاریخ کی تعلیم کے مستقبل میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ آپ کا عطیہ ہماری اگلی نسل کو اپنے آس پاس کی دنیا کو سمجھنے کے لئے درکار علم اور مہارت کے ساتھ بااختیار بنانے میں مدد کرتا ہے۔ ہر ایک کے لئے مفت، زیادہ قابل اعتماد تاریخی معلومات شائع کرنے کے لئے تیار نیا سال شروع کرنے میں ہماری مدد کریں۔
$3081 / $10000

تعریف

Harrison W. Mark
کے ذریعہ، ترجمہ Zohaib Asif
19 October 2023 پر شائع ہوا 19 October 2023
آرٹیکل پرنٹ کریں
Emperor Napoleon in His Study at the Tuileries (by Jacques-Louis David, Public Domain)
ٹویلری میں موجود اپنے ذاتی کتب خانے میں نپولین مطالعہ کرتے ہوئے
Jacques-Louis David (Public Domain)

نپولین بوناپارتے (1769-1821) کورسیکن نژاد فرانسیسی جنرل اور سیاست دان تھا جس نے 1804 سے 1814 تک نپولین اول کے لقب کے ساتھ فرانسیسی شہنشاہ کے طور پر حکومت کی اور پھر 1815 میں مختصر طور پر دوبارہ عنانِ حکومت اپنے ہاتھوں میں سنبھالی۔ شارمیلان کے بعد اس نے سب سے وسیع و عریض یورپی سلطنت کی بنیاد رکھی اور تباہ کن نپولینک جنگوں (1803-1815) کے نتیجے میں قبضہ کی جانے والے علاقوں میں انتظامی و جدید اصلاحات متعارف کروائیں اور انھیں نافذ کیا

اس کی پیدائش کورسکین اشرافیہ کے ایک معمولی سے گھرانے میں ہوئی، نپولین فرانسیسی انقلابی جنگوں (1792-1802) کے دوران میں اپنی اعلی جنگی صلاحیتوں کی بنا پر فرانسیسی فوج میں نمایاں مقام کا حامل ہوا، اور بعد ازاں اسی عسکری مہارت کی بدولت اس نے اٹلی اور مصر میں فوجی مہمات کی قیادت کی۔ اس نے 1799 کے 18 برومائر کی بغاوت میں جمہوریہ فرانسیسی پر قبضہ کر لیا اور 1804 میں خود کو فرانسیسی شہنشاہ تسلیم کر لیا اور ریاست کی باگ ڈور مکمل طور پر اپنے ہاتھوں میں لے لی۔ نپولین اور اس کے مشہور گرانڈے آرمی نے یورپی طاقتوں کے کئی اتحادوں کے خلاف جنگ لڑی۔ جولائی 1807 کے تلست کے معاہدوں تک، اس کا اختیار مغربی اور وسطی یورپ کے بیشتر حصوں پر محیط تھا۔

تاہم، 1812 میں نپولین کے روس پر حملے کی تباہ کن ناکامی کے بعد، یورپ کا بیشتر حصہ اس کے خلاف ہو گیا۔ اسے شکست کے ہاتھوں دو چار ہونا پڑا اور اپریل 1814 میں بحیرہ روم کے جزیرے ایلبا میں جلاوطن کر دیا گیا، مستقبل کی آنکھ دیکھ رہی تھی کہ اگلے سال نپولین پھر فرانس میں فاتحانہ انداز میں واپسی کرے گا، اور اس کے دوسرے دور حکومت کا آغاز ہوا جسے صد یومیہ کہا جاتا ہے۔ اسے جلد ہی واٹر لو کی جنگ (18 جون 1815) میں ایک بار پھر شکست ہوئی، جس کے بعد اسے آخری وقت کے لیے جنوبی بحر اوقیانوس کے جزیرے سینٹ ہیلینا میں جلاوطن کر دیا گیا، جہاں اس کی موت 5 مئی 1821 کو ہوئی۔

نپولین کو بطور ایک اعلی ذہنیت کے حامل جرنیل زیادہ یاد کیا جاتا ہے۔ اپنے فوجی کیرئیر کے دوران میں اس نے 60 جنگوں میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا اور صرف سات میں اسے شکست کا چغہ اوڑھنا پڑا۔ اس کی عسکری اختراعات نے یورپی جنگی معاملہ بندی کو یکسر بدل دیا۔ اس نے جبراََ بھرتی کے اقدام کو فوج میں متعارف کروایا، فوج کے سب سے بڑے یونٹ کے طور پر کور کے نفاذ کو مقبول بنایا، اور کچھ فوجی حکمت عملیوں کا آغاز کیا جن کا تب سے گہرائی میں مطالعہ کیا جا رہا ہے۔ اسے اکثر سکندر اعظم اور جولیس سیزر کے ساتھ تاریخ کے سب سے شاندار جرنیلوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس نے سوِل قوانین کا ایک دستور عمل اور ضابطہ ریاست بھی نافذ کیا، جسے نپولین کوڈ کے نام سے جانا جاتا ہے، جو براعظم یورپ کے بیشتر حصوں میں مروج ہو گیا اور بیشتر جدید اقوام کے عدالتی نظام میں دائر و سائر ہو گیا۔ گو کہ نپولین بیک وقت ایک مصلح بھی تھا اور ایک آمر بھی، دلاوری کا پیکر، شجاعت کی مجسم تصویر، نپولین کو ایک متنازعہ شہرت حاصل ہے لیکن باوجود اس کے وہ مغربی تاریخ کی سب سے مشہور شخصیات میں سے ایک ہے۔

ابتدائی زندگی

15 اگست 1769 کو مستقبل کے تاجدار، نپولین دی بوناپارتے نے کورسیکا کے شہر اجاسیو میں آنکھ کھولی۔ بووناپاتے خاندان کی جڑیں 1529 میں کورسیکا ہجرت کرنے سے پہلے اٹلی سے ملتی ہیں، جہاں انہوں نے خود کو اٹلی کی بے معروف اشرافیہ کے طبقے میں مثبت کر لیا۔ نپولین کے والد، کارلو بوناپارٹ، ایک وکیل تھے، اور اتنا خوشحال تھا کہ وہ اجاسیو میں تین منزلہ کاسا بوناپارٹ کو خرید سکے اور ساتھ ہی ساتھ مضافاتی علاقوں میں ایک گھر، انگور کے باغ اور بھیڑوں کے ریوڑ کے مالک تھے۔ نپولین، کارلو اور ماریا-لیٹیزیا بوناپارٹ کا دوسرا زندہ بچ جانے والا بچہ تھا۔ اس کا ایک بڑا بھائی، جوزف، اور چھوٹے بہن بھائی لوسیئن، ایلیسا، لوئس، پالین، کیرولین اور جیروم تھے۔

جلاوطن ہونے پر نپولین اب ایک کورسیکن قوم پرست نہ رہا بلکہ اس نے خود کو ایک عظیم فرانسیسی مقصد کے لیے پرعزم اور وقف کر دیا تھا۔

صدیوں سے، کورسیکا جمہوریہ جینوا کے زیر اثر رہا تھا لیکن اسے مؤثر طریقے سے خود پر حکومت کرنے کی اجازت تھی۔ تاہم، 1768 میں، جینوا نے کورسیکا کو ریاست فرانس کو بیچ دیا، جو زیادہ براہ راست انتظامیہ کو استعمال کرتے ہوئے اس جزیرے کو منظم کرنا چاہتے تھے۔ اس فعل کو عام عوام کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اور فرانس کی طرف سے بھیجے گئے ابتدائی مہم جو لشکر کی پیش قدمی اور مقصد کو کورسیکن حریت پسند گروہ نے ناکارہ بنا دیا اور اس گروہ کی قیادت سحر انگیز پاسقال پاؤلی کے پاس تھی۔ مئی 1769 میں پونٹے نوو کی فیصلہ کن جنگ میں، فرانسیسیوں کے ہاتھوں پاؤلی کے کورسیکنز کو ہزیمت اٹھانا پڑی، جنہیں پوشیدگی اختیار کرنے پر حالات نے مجبور کر دیا تھا۔ کارلو بوناپارٹ نے ابتدا میں کورسیکن خودمختاری کی بھر پور حمایت کی تھی، لیکن کورسیکا کی شکست کے بعد، کارلو نے اپنے نئے فرانسیسی حکمرانوں سے وفاداری کا حلف لیا۔ بدلے میں، نئی فرانسیسی انتظامیہ نے بوناپارٹ خاندان کو نئے اعزازات اور القابات سے نوازا اور امتیازی خلعتیں سے بھی سرفراز فرمایا

اپریل 1779 میں، کارلو نے اپنے دو بڑے بیٹوں کو فرانس میں تعلیمی اغراض کے لیے اپنے حلقہ احباب میں نئے نئے شامل ہونے والے فرانسیسی افراد کا استعمال کیا۔ نو سالہ نپولین نے فوجی کیریئر کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے لیے ٹرائیس کے قریب رائل ملٹری سکول آف برائن لا شاتوُ میں داخلہ حاصل کر لیا۔ نپولین نے اگلے پانچ سال اس دارالاقمہ میں گزارے، جہاں اس کے غالب کورسیکن لہجے، عجیب و غریب نام، اور شدید قسم کی کورسیکن حب الوطنی نے اسے دوسرے طلبہ سے ممیز و ممتاز کر دیا تھا۔ دوستوں کی قلت کے باعث نپولین نے کتابوں کی صحبت کا رخ کیا۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب اس نے بطور مصنف و ادیب اپنے کیرئیر کا آغاز کرنے پر بھر پور تدبر اور غور و فکر کیا اور کورسیکا کی تاریخ سمیت 60 سے کچھ کم مضامین، ناول اور پمفلٹ تحریر کیے۔ کلاس روم میں، نپولین دانشورانہ طور پر ہنر مند تھا، خاص طور پر ریاضی کے میدان میں۔ راہبوں کے ذریعہ حاصل کی گئی تعلیم ہونے کے باوجود، وہ یسوع مسیح کی الوہیت پر شکوک رکھتے تھے۔ اس شکوک و شبہات نے اسے مذہب کو ایک سیاسی آلے کے طور پر دیکھنے پر مجبور کیا، جسے اس نے اپنے کیریئر کے دوران مؤثر طریقے سے استعمال کیا

Napoleon at Brienne
بری این میں نپولین
Jacques Marie Gaston Onfroy de Breville (Public Domain)

فروری 1784 میں کارلو بوناپارٹ نے اپنی آخری سانسیں لیں۔ دو سال بعد، نپولین نے ایک آرٹلری لیفٹیننٹ کے طور پر معزز ایکول میلٹری سے گریجویشن مکمل کی لیکن اس کے بعد کے کئی مہینے اس نے کورسیکا میں چھٹی گزارتے کاٹے۔ نپولین اور اس کے بہن بھائیوں نے جوش و خروش سے فرانسیسی انقلاب کی حمایت کی جب یہ 1789 میں شروع ہوا، نپولین نے اپریل 1792 میں لابی نیشنل گارڈ میں لیفٹیننٹ کرنل کے طور پر انتخاب جیتا۔ بوناپارٹس اور پاولی کے حامیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے جلد ہی نپولین کے خاندان کو 1793 میں سرزمین فرانس فرار ہونے پر مجبور کر دیا۔ جلاوطن ہونے پر نپولین اب ایک کورسیکن قوم پرست نہ رہا بلکہ اس نے خود کو ایک عظیم فرانسیسی مقصد کے لیے پرعزم اور وقف کر دیا تھا۔

انقلاب اور نپولین

1792 کے موسم بہار میں، انقلابی فرانس نے آسٹریا اور پرشیا کے ساتھ جنگ ​​شروع کر دی، جس کے نتیجے میں اگلے کئی سال تک جاری رہنے والی انقلابی جنگوں کا آغاز ہو گیا۔ والمی کی جنگ (20 ستمبر 1792) میں فرانس کی شاندار فتح کے بعد، پہلے فرانسیسی جمہوریہ کا اعلان کیا گیا، اور فرانس کے بادشاہ لوئس XVI کا21 جنوری 1793 کو سر قلم کر دیا گیا۔ جیسے جیسے جمہوریہ فرانس زیادہ سے زیادہ شدت پسند ہوتا گیا، برطانیہ، سپین اور نیدرلینڈز سمیت کئی ممالک نے جمہوریہ فرانس کے خلاف جنگ میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔ 28 اگست 1793 کو، برطانوی اور ہسپانوی بحری جہازوں کے ایک بیڑے نے ٹولن کی بندرگاہ پر قبضہ کر لیا۔ چونکہ ٹولن نے بحیرہ روم میں موجود پورے فرانسیسی بحری بیڑے کو جگہ دے رکھی تھی، اس لیے یہ علاقہ فرانس کے لیے بہت اہم تھا۔

دریں اثنا، نپولین نے لی سوپے ڈی بیوکئیر کے عنوان سے ایک انتہا پسند سیاسی جماعت جیکوبن کی حمایت میں ایک پرچہ شائع کیا، جس میں اس نے انقلابی حکومت کی طرف سے کیے گئے انتہائی درشت اقدامات کی ضرورت پر بحث کی۔ اس رسالے نے جیکوبن کے کئی طاقتور رہنماؤں کو متاثر کیا، جس کی وجہ سے نپولین کو ٹولن کے محاصرے میں فرانسیسی توپ خانے کا کمانڈر مقرر کیا گیا۔ نپولین نے محاصرے کے دوران میں قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا، اور اس کے دستے کی توپوں کی بدولت 19 دسمبر 1793 کو فرانس فتح سے ہمکنار ہوا۔ ان توپوں نے اس جنگ میں فرانسیسی فتح کو یقینی بنانے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا۔ اگرچہ وہ آخری حملے کے دوران زخمی ہو گیا تھا، نپولین کو جنگ کے بعد بریگیڈیئر جنرل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی، اس وقت اس کی عمر مھض 24 سال تھی۔

The Supper at Beaucaire
بیوکائر میں شام کے کھانے کا منظر
Jean-Jules-Antoine Lecomte du Nouÿ (Public Domain)

جولائی 1794 میں، دہشت گردی کا دور ہراسانی اختتام پذیر ہوا، اور جیکوبنس اقتدار کی کرسی سے پھسل گئے۔ نپولین کو کچھ وقت کے لیے گرفتار کر لیا گیا لیکن بالآخر رہا کر دیا گیا۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اپنے محسنوں کے زوال کے ساتھ ساتھ نپولین کا مختصر کیریئر بھی زمین بوس ہو چکا تھا۔ یہ خیال 4 اکتوبر 1795 کوتبدیل ہوا، جب جمہوریہ فرانس کی حکومت آئندہ دنوں میں پیرس میں ابھرنے والی عنقریب ایک شاہی بغاوت کو فرو کرنے مصروف تھی۔ چونکہ نپولین دارالحکومت کے چند اہل اور قابل افسران میں سے ایک تھا، اس لیے اسے اس دفاعی پروگرام کا انچارج مقرر کر دیا گیا، یہ کام اس نے انتہائی بے رحمی مگر کامیابی سے انجام دیا۔ کچھ توپیں طلب کرنے کے بعد، نپولین کے دستوں نے ہجوم پر انتہائی سفاکی سے انگوری چھروں (چھوٹے ڈھلواں لوہے کے گولوں کا گُچّھا جو توپ کے گولے کے طور پَر اِستعمال ہوتا تھا) کی برسات کر دی۔

13 وینڈےمائر کی بغاوت کو دبا کر، نپولین نے پال باراس کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی، جو جسے فرانسیسی ڈائریکٹری کے عنوان سے موسوم نئی حکومت کے رہنماؤں میں سے ایک تھا ۔ 1795 میں، باراس نے نوجوان جنرل کو جوزفین ڈی بیوہرنائس سے ملوایا، جو ایک 32 سالہ بیوہ تھی جس کے دل کی تاروں کے ساتھ نپولین کے دل کی ڈوریاں جلد ہی مل گئیں۔ مزید برآں، باراس نے اٹلی کی فرانسیسی فوج کی کمان میں نپولین کی تقرری کو یقینی بنایا۔ 9 مارچ 1796 کو، نپولین نے دو دن بعد اٹلی روانہ ہونے سے پہلے ایک سوِل تقریب میں جوزفین کو اپنے عقد میں لے لیا۔ یہ وہ وقت تھا جب اس نے اپنے نام کو فرانسیسی انداز میں "نپولین بوناپاتے" لکھنا شروع کر دیا۔

اٹلی، مصر اور برُمائر کی مہمات

جب نپولین پہلی بار اٹلی پہنچا تو اس کے افسران نے اس کو اتنی اہمیت نہیں دی۔ وہ ایک چھوٹا، دبلا پتلا آدمی تھا، اس کی عمر صرف 26 سال تھی اور اس میں میں فوجی قیادت کرنے کا کوئی تجربہ موجود نہیں تھا۔ لیکن اس کے بابت عام جنتا کی یہ رائے کچھ ہی عرصے میں بدل گئی۔ اٹلی کی غیر منظم فوج کو ایک منظم و مربوط شکل دینے اور انتہائی ضروری ساز و برگ کی خریداری کے بعد، نپولین نے پیڈمونٹ-سارڈینیا کی سلطنت کے خلاف ایک سبک رفتار مہم کا آغاز کیا اور اسے ایک ماہ کے اندر اندر زیر کر دیا۔ اس کے بعد اس نے آسٹریا کے خلاف جنگ کا میدان گرم کیا، ملِان شہر پر قبضہ کیا، اور شمالی اٹلی میں کئی فرانسیسی باج گزار ریاستیں قائم کیں۔ اس نے آسٹریا کے مضبوط گڑھ مانتوا کا محاصرہ کیا، کاسٹیگلیون کی لڑائی (5 اگست 1796)، آرکول کی لڑائی (15-17 نومبر) اور ریولی کی لڑائی (14-15 جنوری 1797) میں آسٹریا کی فوجوں کو منہ کی کھانی پڑٰ۔ جب بالآخر فروری 1797 میں مانتوا پر آسٹریا کا علم زمین بوس ہو گیا تو، نپولین کی فوج ویانا کو زیر نگیں کرنے پر عازم تھیں۔ آسٹریا نے جنگ بندی کے لیے ہاتھ پھیلائی اور اکتوبر میں کیمپو فارمیو کے معاہدے پر دستخط کیے، جس سے نپولین کے خلاف لڑی جانے والی اتحادیوں کی پہلی اپنے اختتام کو پہنچی

Battle of Arcole
جنگِ آرکول
Horace Vernet (Public Domain)

نپولین کی اطالوی مہم کی شاندار کامیابی سے اسے نے اپنے لشکر کا دل موہ لیا۔ وہ اپنی فوجی جوانوں میں "ناٹا افسر" کے عرفی نام سے جانا جاتا تھا۔ اس کامیابی نے اسے فرانس میں سیاسی طور پر ایک غیر مرئی شخصیت بنا دیا تھا اور غیر معمولی طور پر مقبول بنا دیا تھا۔ آرکول پل کے پار واقع ہونے والے معرکے میں اس کی غیر معمولی بسالت اور مردانگی جیسی داستانیں عوام میں بے حد مشہور ہوئیں اور یہی کہانیاں بعد ازاں نپولین کے متعلق مافوق الفطرت روایات کی بنیاد بنیں۔ 1798 میں، نپولین نے خطہ میں برطانوی تسلط کو خطرے میں ڈالنے کے لیے مصر میں فوج کی قیادت کرنے کی اجازت حاصل کی۔ اہرام کی جنگ (21 جولائی) میں مملوکوں کو شکست دینے اور قاہرہ پر قبضہ کرنے کے بعد، نپولین نے شام کی طرف پیش قدمی کی جہاں اسے ایکر کے محاصرے (20 مارچ-21 مئی 1799) میں برطانوی اورعثمانی افواج نے روک دیا ۔ اسے مجبوراً اسکندریہ واپس جانا پڑا اور اگست 1799 میں اس نے مصر کی تپتی صحرائی زمین کو خیر آباد کہہ دیا۔ اگرچہ مصر اور شام میں نپولین کی مہم ایک فوجی ناکامی تھی، لیکن اس نے روزیٹا پتھر (حجر رشید) کی دریافت کے ساتھ مصریات کے شعبے کو بہت ترقی دی۔

اکتوبر 1799 میں، نپولین فرانس لوٹ گیا اور اس سے کئی ناراض فرانسیسی حکام جیسے کہ ایمانوئل جوزف سیئس نے رابطہ کیا جو اسے بغاوت کی 'تلوار' کے طور پر استعمال کرنا چاہتے تھے۔ نپولین نے اس کی پیشکش کو قبول کیا اور، 9-10 نومبر 1799 کو، 18 برومائر کے دن خون کا ایک قطرہ گرے بغیر ہونے والی بغاوت میں حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اس کے بعد نپولین نے فرانسیسی کونسل کے عنوان سے موسوم نئی حکومت کے سیاہ و سفید کا مالک بننے کی دوڑ میں سیئس کو بہت پیچھے دوڑ دیا۔ اس کے اقتدار میں آنے سے فرانسیسی انقلاب کے خاتمے اور نپولین دور کا آغاز ہوا۔

کونسلی و جہاں داری

کونسلی نظام چار سال تک موجود رہا رہا، اس دوران نپولین نے اپنی طویل ترین سیاسی کامیابیوں میں سے چند ایک کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اس نے 1801 کے باہمی عہدوپیمان پر گفت و شنید کی، جس سے فرانس اور کیتھولک چرچ کی مفاہمت واقع ہوئی اور دونوں نے آپسی آشتی کا پیغام قبول کر دیا، ساتھ ہی ساتھ نپولین نے نپولین کوڈ کا اجرا کیا، جس نے انقلاب کی کچھ آزاد روُ اصلاحات کی بازگشت کی۔ اس نے ہیٹی پر دوبارہ قبضہ کرنے اور وہاں غلامی کو بحال کرنے کے لیے ایک حملہ آور اور دست دراز فوج بھیجی۔ یہ حملہ ناکام ہو گیا، اور ہیٹی نے 1804 میں اپنی آزادی حاصل کر لی۔ مزید برآں، پہلے کونسل کے طور پر، نپولین نے ریاست لوزیانا کی فروخت کو عمل میں لایا، جس سے ریاستہائے متحدہ امریکہ کا حجم دوگنا ہو گیا۔ فوجی طور پر، اس نے الپس کے پہاڑی سلسلے کو عبور کیا اور مارینگو کی جنگ (14 جون 1800) میں آسٹریا کے باشندوں کو شکست دی اور دو سال بعد امینز کے معاہدے کے ساتھ انقلابی جنگوں کا خاتمہ کیا۔ اس وقت، ایک رائے شماری کے ذریعے اسے زندگی بھر کے لیے فرسٹ کونسل کے عہدے پر براجمان کر دیا گیا

Napoleon Crossing the Alps, Belvedere Version
نپولین کے ایلپس عبور کرنے کی منظر کشی
Jacques-Louis David (Public Domain)

نپولین جانتا تھا کہ اس کی ابھرتی ہوئی حکومت اس وقت تک محفوظ نہیں رہے گی جب تک کہ وہ موروثی سلطنت قائم نہ کر سکے۔ لہذا، 18 مئی 1804 کو، نپولین نے فرانسیسی سلطنت کے قیام کا اعلان کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ خود کو فرانسیسی شہنشاہ تسلیم کر لیا۔ نپولین اول کی تاجپوشی 2 دسمبر کو نوٹری ڈیم ڈی پیرس کیتھیڈرل میں ہوئی، جہاں نپولین نے تاج لے کر اپنے سر پر پیوست کر لیا۔ اس وقت تک، نپولینی جنگیں شروع ہو چکی تھیں، کیوں کہ مئی 1803 میں برطانیہ نے فرانس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا۔ تاہم، پہلے بطور اولین فرانسیس شہنشاہ اور بعد ازاں خسرو ایران، تاجپوشی کے بعد برطانیہ کے ساتھ ساتھ آسٹریا، روس اور نیپلز نے فرانس کے خلاف اتحادیوں کی تیسری جنگ (1805-1806) میں ہتھیار اٹھا لیے۔ ، نپولین نے اپنے نئے گرانڈے آرمی کی سربراہی میں جرمنی میں مارچ کرنے میں کوئی وقت ضائع نہیں کیا، اس نئی فوج کو آٹھ نیم خودمختار کوروں میں تقسیم کیا گیا تھا تاکہ زیادہ شتابی اور لچک پیدا ہو۔

نپولین کو اکثر اپنے کم قابل اور نکمے بھائیوں کو بہت زیادہ طاقت دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

کوروں کا یہ نظام بہت مؤثر ثابت ہوا اور اس نظام نے نپولین کو اس قابل بنا دیا کہ وہ الم کی مہم کے اختتام پر آسٹریا کی فوج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دے۔ اس کے بعد اس نے 13 نومبر کو ویانا پر قبضہ کیا اور آسٹرلٹز کی جنگ (2 دسمبر 1805) میں آسٹرو-روسی فوج کو فیصلہ کن شکست دی، جسے بڑی حد تک اس کی سب سے بڑی فتوحات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ آسٹریا کے ہتھیار ڈالنے کے بعد، نپولین نے اپنی حفاظت میں کئی جرمن ریاستوں کو کنفیڈریشن آف رائن میں دوبارہ منظم کیا۔ یہ براہ راست طور پر جولائی 1806 میں مقدس رومی سلطنت کی تحلیل کا باعث بنا۔ نپولین نے نیپلز کے بادشاہ بوربن کو بھی معزول کر کے اپنے بھائی جوزف کو تخت پر بٹھایا۔ لوئس بوناپارٹ کو 1806 میں ہالینڈ کا بادشاہ بنایا گیا، جب کہ جیروم کو 1807 میں ویسٹ فیلیا کی بادشاہی ملی۔ یہ تمام اقدامات ریاست پر محض ایک خاندان کی اجارہ داری کے قیام کی کوشش کے طور پر کیے جاتے رہے۔ نپولین کو اکثر اپنے کم قابل اور نکمے بھائیوں کو بہت زیادہ طاقت دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

اکتوبر 1806 میں، پرشیا، روس اور برطانیہ کے ساتھ نپولین کے خلاف لڑی جانے والی چوتھی اتحادی جنگ (1806-1807) میں شامل ہوا۔ نپولین نے جینا اورسٹیٹ کی جنگ (14 اکتوبر) میں پرُشِیَن فوج کو چت کر دیا اور کچھ ہی دنوں بعد برلن میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوا۔ پروشیا کے زیر قبضہ پولینڈ میں آگے بڑھتے ہوئے، روسیوں سے ایلاؤ کی خونی جنگ (7-8 فروری 1807) میں لڑنے سے پہلے اس نے ایک نئی باج گزار ریاست، وارسا کی گرینڈ ڈَچی (جاگیر) کا ڈول ڈالا۔ 14 جون کو، نپولین نے فریڈ لینڈ کی جنگ میں روسیوں کو مات کر دیا، جس کے بعد اس کی ملاقات روس کے زار الیگزینڈر اول (1801-1825) سے امن کے سلسلے میں دریائے نیمن کے وسط میں موجود ایک بیڑے پر ہوئی۔ آئندہ دنوں میں ہونے والی ٹِلسِٹ معاہدوں میں، ایک فرانسیسی-روسی اتحاد کا قیام عمل میں لایا گیا، اور الیگزینڈر نے نپولین کی طرف سے برطانیہ کے خلاف نافذ کی گئی پابندیوں کی حمایت کی۔ ان پابندیوں کے نتیجے میں جو تجارتی نظام قائم کیا گیا اسے براعظمی نظام کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ان ہی معاہدوں کے نتیجے میں پروشیا اپنی ریاست کا آدھا رقبہ کھو بیٹھا۔ یہ وہ وقت جب نپولین کی طاقت، اس کا جلال، اس کی سطوت اور اس کی شان و شوکت اپنی اپج پر پہنچی ہوئی تھی۔ آفتاب عالم نے دیکھا کہ اس کا اثر و رسوخ مغربی اور وسطی یورپ تک پھیلا ہوا تھا،

سپین اور روس

1807 میں، نپولین نے پرتگال پر حملہ کرنے کا حکم دیا تاکہ اسے براعظمی نظام کی تعمیل نہ کرنے کی سزا دی جا سکے۔ لزبن بہت جلدی فرانسیسی افواج کے قبضے میں آگیا، لیکن نپولین غیر مطمئن تھا۔ وہ حد سے زیادہ طور پر موقع پرست واقع ہوا تھا، اس نے اسپین کے شاہی خاندان کے خانگی جھگڑے اور نزع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسپین پر حملہ کیا اور اپنے بھائی جوزف کو 1808 میں ہسپانوی تخت پر بٹھایا۔ پرتگالی اور ہسپانوی حکومتوں نے فرانسیسی قبضے کے خلاف مزاحمت کرنے میں بہت عجلت برتی اور فرانس کے خلاف جزیرہ نما جنگ (1807-1814) کا اعلان کر دیا۔ برطانوی افواج کی مدد سے، پرتگالی اور ہسپانوی نے سخت مزاحمت کی جس میں سفاک گوریلا جنگ شامل تھی۔ اور بہت جلد ہی، تقریباََ 200,000 فرانسیسی فوجی اس خطے میں پھنس گئے تھے ، جس سے فرانسیسی فوجی وسائل پر شدید دباؤ پڑا۔

Napoleon I on his Imperial Throne
اپنے شاہی تخت پر براجمان ہوئے نپولین اول
Jean-Auguste-Dominique Ingres (Public Domain)

دریں اثنا، آئبيريائی باغیوں کی ابتدائی کامیابیوں نے آسٹریا کی سلطنت کو اپریل 1809 میں اتحادیوں کی پانچویںجنگ شروع کرنے کا حوصلہ دیا۔ دریائے ڈینیوب کے کنارے اسپرن- اسلنگ کی جنگ (21-22 مئی)میں نپولین کو شہنشاہ کے طور پر پہلی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ اس نے بالآخر اپنی افواج کو دوبارہ منظم کیا اور واگرام کی جنگ (5-6 جولائی) میں آسٹرین افواج کو شکست دی، اسپرن-ایسلنگ نے یورپ پر یہ نکتہ عیاں کر دیا کہ نپولین کو شکست دی جا سکتی ہے۔ آسٹریا کے ساتھ جنگ ​​کے بعد، نپولین نے اپریل 1810 میں آسٹریا کی آرچ ڈچس میری لوئیس سے شادی کی، جو ہیبسبرگ خاندان کے ایک شہنشاہ کی دختر تھی؛ اس نے پچھلے جنوری میں جوزفین کو طلاق دے دی تھی کیونکہ وہ وارث پیدا کرنے میں ناکام رہی تھی۔ 20 مارچ 1811 کو میری لوئیس نے ایک لڑکے کو جنم دیا، نپولین II، جسے روم کا بادشاہ کہا جاتا تھا۔

1811 تک، فرانسیسی اور روسی سلطنتیں تصادم کے راستے پر تھیں۔ روس نے فرانسیسی زیر اثر ڈچی آف وارسا کے وجود کو ایک خطرے کے طور پر دیکھا جب کہ نپولین نے محسوس کیا کہ جب زار سکندر نے براعظمی نظام کو قبول کرنا چھوڑ دیا تو اسے دھوکہ دیا گیا ہو۔ 24 جون 1812 کو، نپولین نے روس پر دھاوا بول دیا، کیونکہ 615,000 سے زیادہ فرانسیسی اور اتحادی افواج نے دریائے نیمن کو عبور کر لیا تھا، یورپ نے اس قدر بڑے لشکر پر مشتمل فوج کو پہلے کبھی بھی کہیں بھی نہ دیکھا تھا۔ تاہم، اتنی بڑی فوج کو دیکھنے کے باوجود روسیوں کے اوسان خطا نہیں ہوئے، انھوں نے اپنے اعصاب پر اپنے کنٹرول کو برقرار رکھا اور لڑائی میں ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔ روسیوں نے فرانسیسیوں کو اپنے علاقے میں کافی حد تک پیش قدمی کرنے پر مجبور کر دیا اور اس سفر میں جھلسی ہوئی زمینی حکمت عملیوں میں مشغول رہے۔ یہ عمل بہت مؤثر ثابت ہوا ، کیونکہ پہلی بڑی جنگ لڑنے سے پہلے ہی فرانسیسیوں نے 100,000 سے زیادہ آدمیوں کو کھو دیا تھا۔ 7 ستمبر کو، فرانسیسی اور روسیوں نے بوروڈینو کی خونریز جنگ لڑی، اور نپولین ایک ہفتے بعد ماسکو میں داخل ہوا۔ تاہم، شہر ویران تھا اور جلد ہی شعلوں کی لپیٹ میں آ گیا، جس نے اسے قابض فوج کے لیے بیکار کر دیا۔

زوال

یہ محسوس کرنے کے بعد کہ روسی امن کی طرف رجوع کرنے والے نہیں، نپولین نے اکتوبر میں پسپائی کا حکم دیا۔ تاہم، ایک ظالمانہ موسم سرما کے آغاز اور تعاقب کرنے والی روسی فوجوں نے نپولین کی گرانڈے فوج کو تباہ کر دیا۔ دسمبر 1812 میں جب فرانسیسیوں نے دریائے نیمن کو عبور کیا تو وہ تقریباََ پانچ لاکھ کے قریب آدمی کھو چکے تھے۔ یورپ کی بڑی طاقتیں نپولین کو شکست دینے کے موقع کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اتحادی افواج کی چھٹی جنگ (1813-1814) میں، روس کے ساتھ برطانیہ، پرشیا، آسٹریا اور سویڈن شامل ہوئے۔ لیپزگ کی جنگ (16-19 اکتوبر 1813) میں نپولین کو ایک اور دندان شکن شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد کافی جرمن اتحادی اس سے منحرف ہو گئے، اور کنفیڈریشن آف رائن کو تحلیل کر دیا گیا۔ اس کے بعد اتحادی افواج نے فرانس پر حملہ کر دیا، نپولین کے پاس 11 اپریل 1814 کو تخت چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ اسے بحیرہ روم کے جزیرے ایلبا میں جلاوطن کر دیا گیا، اور فرانس کے بادشاہ لوئس XVIII تخت نشین ہو گئے۔

Napoleon after his Abdication at Fontainebleau
فونتائنبلو میں اپنی دست برداری کے بعد نپولین کی تصویر
Paul Delaroche (Public Domain)

1 مارچ 1815 کو نپولین نے بوربن خاندان کی شاہی بحالی کی وجہ سے پیدا ہونے والی سیاسی بدامنی کا فائدہ اٹھایا اور 1000 فوجیوں کے ساتھ جنوبی فرانس کے ساحل پر اترا۔ 20 مارچ کو، وہ فاتحانہ انداز میں پیرس میں داخل ہوا، اس کے دوسرے دور حکومت کا آغاز ہوا جسے صد یویہ کہا جاتا ہے۔ اس کے دشمنوں نے اسے غیر قانونی قرار دینے اور نئی افواج کی بنیاد ڈالنے میں کوئی وقت ضائع نہیں کیا۔ مئی کے آخر تک، اتحادیوں کی ساتویں جنگ نے شمال مشرقی فرانس کو ڈرانے کی غرض سے دو فوجیں بیلجیئم بھیجی تھیں جن میں آرتھر ویلزلی، ڈیوک آف ویلنگٹن کی قیادت میں ایک برطانوی-ولندیزی-جرمن فوج اور گیبرڈ لیبریچٹ وون بلوچر کی قیادت میں ایک پرشین فوج تھی۔ 15 جون 1815 کو، نپولین نے اس نئے خطرے سے نمٹنے کے لیے بیلجیم کی طرف کوچ کیا لیکن اسے واٹر لو کی جنگ (18 جون 1815) میں فیصلہ کن شکست ہوئی۔ اس نے چار دن بعد دوبارہ استعفیٰ دے دیا اور جنوبی بحر اوقیانوس میں سینٹ ہیلینا کے تنہا جزیرے میں جلاوطن کر دیا گیا۔ یہاں، اسے برطانوی فوج نے اپنے قضے میں ہی رکھا۔ ان کی صحت مسلسل بگڑتی رہی یہاں تک کہ یہ نیر درخشان 5 مئی 1821 کو 51 سال کی عمر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔

سوالات اور جوابات

نپلوین بوناپارتے کون تھا؟

نپولین بوناپارتے کورسیکن نژاد فرانسیسی جنرل اور سیاست دان تھا جس نے 1804 سے 1814 تک نپولین اول کے لقب کے ساتھ فرانسیسی شہنشاہ کے طور پر حکومت کی اور بعد ازاں 1815 میں مختصراََ دوبارہ حکومت کی

نپولین بونپارتے کہاں پیدا ہوا تھا؟

نپولین بوناپارتے کورسیکا کے قصبے اجاسیو میں پیدا ہوا تھا

نپولین بونپارتے کو شکست کب ہوئی تھی؟

نپولین بوناپارٹ کو اکتوبر 1813 میں لیپزگ کی جنگ یا اقوام کی جنگ میں شکست ہوئی تھی۔ اس کے بعد، فرانس پر حملہ کیا گیا، اور اسے اپنے عہدے سے دست بردار ہونے پر مجبور کیا گیا اور ایلبا میں جلاوطن کر دیا گیا۔ وہ 1815 میں واپس آیا، اور اسے 18 جون 1815 کو واٹر لو کی جنگ میں اسے دوبارہ شکست ہوئی اور مستقل طور پر سینٹ ہیلینا میں جلاوطن کر دیا گیا۔

تاریخ میں نپولین بوناپارتے اتنا اہم کیوں ہے؟

نپولین بوناپارٹ پہلی فرانسیسی سلطنت کی بنیاد رکھنے اور اپنی فتوحات اور آزاد منش اصلاحات کے ذریعے یورپ کی تشکیل نو کے عمل میں اہم تھا۔ اس نے اپنی عسکری اختراعات سے جنگیں لڑنے کا طریقہ بھی بدل دیا۔

مترجم کے بارے میں

Zohaib Asif
جی میں زوہیب ہوں، زبان کا جادوگر اور ذہن کا مورخ۔ وقت کی چابی موڑنے والا، ماضی کے دریچوں میں جھانکنے والا الفاظ کا سنار۔ زبان اور تاریخ کے اس سفر پر میرا ساتھ ضرور دیجیے کیوں کہ اکھٹے ہم تاریخ کے سر بستہ رازوں سے پردہ ہٹائیں گے اور ساتھ ساتھ اٹھکیلیاں بھی کریں گے

مصنف کے بارے میں

Harrison W. Mark
ہیریسن مارک SUNY اوسویگو کا فارغ التحصیل طالب علم ہے جہاں اس نے تاریخ اور علوم سیاسیہ (پولیٹیکل سائنس) کا مطالعہ کیا تھا

اس کام کا حوالہ دیں

اے پی اے اسٹائل

Mark, H. W. (2023, October 19). نپولین بوناپارتے [Napoleon Bonaparte]. (Z. Asif, مترجم). World History Encyclopedia. سے حاصل ہوا https://www.worldhistory.org/trans/ur/1-21844/

شکاگو سٹائل

Mark, Harrison W.. "نپولین بوناپارتے." ترجمہ کردہ Zohaib Asif. World History Encyclopedia. آخری ترمیم October 19, 2023. https://www.worldhistory.org/trans/ur/1-21844/.

ایم ایل اے سٹائل

Mark, Harrison W.. "نپولین بوناپارتے." ترجمہ کردہ Zohaib Asif. World History Encyclopedia. World History Encyclopedia, 19 Oct 2023. ویب. 21 Dec 2024.