نشاۃ ثانیہ کے دوران، حکمرانوں، مذہبی اور بلدیاتی ادارں اور صاحب ثروت افراد کی جانب سے فنون لطیفہ کے اکثر شاہکاروں کی سرپرستی کی جاتی اور ان ہی کی طرف سے اس کی لاگت بھی اٹھائی جاتی۔ مجسمہ سازی، نقاشی، گرجا گھروں کے لیے فن پاروں کی تخلیق اور تصویر کشی ایسے چند ذرائع تھے جن سے یہ فنکار اپنی روزی روٹی کا انتظام کرتے تھے۔ معمولی گاہکوں کے لیے پہلے سے تیار شدہ کتبے اور چھوٹی مورتیاں موجود ہوتی تھیں۔ موجودہ دور کے رواج کے برخلاف، نشاۃ ثانیہ عہد کے فنکار اپنے ذاتی تخلیقی جذبات اور خیالات کو گاہکوں کی طلب اور مراد پر قربان کر دیا کرتے تھے اور ان کی خواہش کے مطابق ہی فن پارے تخلیق کرتے۔ ان فن پاروں (جن کی قیمت سرپرست ادا کیا کرتے تھے) کی تخلیق کے لیے باقاعدہ معاہدے ہوتے تھے جن میں مکمل لاگت، وقت کا دورانیہ، استعمال ہونے والی قیمتی اشیاء اور عناصر، اور ان کے علاوہ بسا اوقات ذمہ لیے گئے کام کا خاکہ بھی شامل ہوتا۔ قانونی مقدمہ بازی بھی بعض اوقات عمل میں لائی جاتی لیکن کم از کم ایک کامیاب فن پارہ اپنے خالق کی شہرت اس قدر تو بڑھا ہی دیتا تھا کہ وہ اپنے کام پراپنے دعوی کا جواز فراہم کر سکے۔
[image:12817
یہ وارثان فن آخر تھے کون؟
نشاۃ ثانیہ کے عہد میں، ہنر مند افراد کے یہ لیے یہ معمول تھا کہ وہ کسی خاص گاہک کی آرزو کو پورا کرنے کے لیے ہی اپنی نادر سوچ اور منفرد خیالات کی تجسیم سازی کرتے تھے اور ہنر تخلیق کرتے تھے۔ سرپرستی کا یہ سلسلہ میکیناتیزمو کہلاتا تھا۔ چونکہایسی تخلیق کرنے کے لیے مطلوب صلاحیتیں بہت کم یاد تھیں، اشیاء بہت مہنگی تھیں اور درکار وقت بہت طویل تھا، فن کے یہ شاہکارعموماََ بہت مہنگے ثابت ہوتے تھے، نتیجتاََ، ان صاحب فن افراد کی دکانوں کے گاہک شہروں، ریاستوں اور جاگیروں کے حاکم، پادری، اشرافیہ، ساہوکار، کامیاب تاجر، مصدق، اہل کلیسا، مذہبی مجالس اور ہسپتالوں سممیت مخلتف بلدیاتی حلقے ہوتے تھے۔ یہ گاہک نہ صرف اپنی روزمرہ زندگییوں اور عمارات کو ان فن پاروں سے معمر کرنا چاہتے تھے بلکہ ان سے اپنی دولت، سخاوت اور فن کے حوالے سے اس قدر شائستہ ذوق کا ثبوت بھی دیتے تھے۔
فلورینس کے میڈیچی اور منچووا کے گونانزا خاندان جیسے شہروں کے حاکمین اور امراء خود کو اور اپنے خاندان کو کامیاب ثابت کرنا چاہتے تھے اور چیزوں کو خود سے منسوب کرنا انہیں بہت بھاتا تھا۔ خود کو ماضی کے سورما اور قائد ظاہر کروانا ان کا بہترین مشغلہ تھا۔ ان کے برعکس پادری اور اہل کلیسا فن کے ذریعے عیسائیت کا پرچار کرنے کے شائق تھے۔ ان کا مقصد مذہبی قصوں کی ایسی تصاویری تجسیم تخلیق کرنا تھا جسے ایک ان پڑھ شخص بھی سمجھ سکے۔ دوران نشاۃ ثانیہ، اٹلی میں شہروں کے لیے ایک خاص تشخص اور شان و شوکت پیدا کرنا بہت اہم تھا۔ فلورینس، وینس، منچووا اور سئینا جیسے شہروں کے مابین بہت سخت مقابلہ رہتا تھا اور انہیں امید تھی کہ فن کے نئے نمونے تخلیق کرنے سے اٹلی اور عالمی سطح پر ان کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہو جائے گا۔ عوامی طور پر کمیشن کئے گئے کاموں میں شہر کے موجودہ یا گزرے ہوئے حاکمین اور فرما رواؤں کی تصاویر، جنگی سپہ سالاروں کے مجسمے یا شہر کے ساتھ منسلک کلاسیکی شخصیات (جیسا کہ فلورینس کا شاہ ڈیوڈ) کی شبیہ، وغیرہ شامل ہوتی تھیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر، مشہور و معروف صاحب ہنر افراد کو اپنے ہاں کام کرنے کے لیے کسی دوسرے شہر سے غیر قانونی طور نکالنے کی شہروں کی حد درجہ کوشش ہوتی تھی۔ ماہرین کی اس مسلسل گردش ہوئی منڈی کی وجہ سے ہی بیش بہا آزاد شہروں پر مشتمل اٹلی میں وہ اپنی بڑھتی ہوئی شہرت کو مزید دوبالا کرنے کے لیے مختلف نت نئے کام اپنے ذمہ لینے کے شوقین رہتے تھے۔
کسی ماہر اور قابل فنکار کو پا لینے پر، شہروں کے فرماں روا اسے غیرمعینہ مدت کے لیے اسے اپنے دربار کی زینت بنا لیا کرتے تھے۔ ’شاہی فنکار‘ کی حیثیت ایک عام مصور کی نسبت بہت زیادہ ہوتی تھی اور شاہی خلوت خانوں کی تزئین و آرائش سے لے کر اپنے سرپرست کی فوج کے جھنڈے کا ڈیزائن اور اپنے نوکروں کی پوشاک تیار کرنے جیسے فنی صلاحیتیں طلب کرنے والے کاموں میں بھی مشغول ہوتا تھا۔ شاہی درباروں میں بہترین فنکاروں اور معماروں کی اجرت عام پیسے سے بہت زیادہ تھی۔ انہیں فرمارواؤں کی جانب سے انہیں محصول سے مثتثنیٰ قرار دینے کے علاوہ انہیں وسیع و عریض رہائشگاہیں، جنگلات پر مبنی رقبہ اور متنوع القابات سے نوازا جاتا۔ اس کی ایک واضع مثال لیونارڈو ڈا ونچی (۱۴۵۲ تا ۱۵۱۹ء) اور آندریا منٹگنا (۱۴۳۱ تا ۱۵۰۶ء) جیسے فنکاروں کے آپسی خطوط ہیں جن میں وہ اپنے امیر لیکن کنجوس سرپرستوں سے اپنی مختص کردہ تنخواہوں اور کرامات کا احتراماََ لیکن متواتر مطالبہ کرتے ہیں۔
نذری پُتلوں اور کتبوں جیسے عام نمونے ایسے ہی معمولی افراد کی دسترس میں ہوتے تھے لیکن ان کی خرید و فروخت صرف خاص خاص مواقع پر ہوتی تھی۔ شادیوں پر لوگ اپنی الماریوں، کمرے کے کچھ حصوں اور فرنیچر کو منور اور آراستہ کرنے کے لیے کسی فنکار کا سہارا لیتے۔ عام لوگوں کے لیے کسی خوشی کے موقع پر گرجا گروں میں رکھنے کے لیے کتبے بھی عموماََ خریدے جاتے تھے۔ یہ کتبے فن کے ان چند نمونوں میں سے تھے جنہیں وافر مقدار میں بنایا جاتا تھا اور ہر خاص و عام خود ہی اس کی خرید و فروخت میں ملوث ہوتا۔ اس قسم کی سستے نمونوں کے لیے استعمال شدہ اشیا کے بیوپاریوں اور ایسی دکانوں کا بھی رخ کرتے تھے جہاں کندہ کاری کا سامان، جھنڈے اور تاش کے پتے سستی قیمت پر دستیاب ہوتے جن پر بعد ازاں اپنے خاندان کا موروثی نشان یا نام ثبت کر کے اپنی ملکیت بنا لیا جاتا تھا۔
مطالبات اور معاہدے
نشاۃ ثانیہ کی اس قسم کے فنی نمونوں کا خریدار، ان نمونوں کی مکمل تخلیق شدہ صورت کے حوالے سے بہت متجسس ہوتا۔ جیسا کے مذکرہ بالا ہے کہ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ یہ فن پارے محض جمالیاتی اظہار کے علاوہ ایک خاص قسم کا معنی عوام الناس تک پہنچانے کے لیے تخلیق کیے جاتے۔ اس کا کوئی فائدہ نہ ہوتا کہ ایک مذہبی مجلس اپنے بانی پادری یا کسی عظیم مذہبی ہستی کے تصویری کشی کےلیے پیسے بھرے اور بدلے میں اسے ایک ایسا فن پارہ ملے جس پر ایک ایس تصویر ہو جو پہچانی جانے کے قابل نہ ہو۔ آسان لفظوں میں اس بات کو ایسے بیان کیا جا سکتا ہے کہ فنکار تخیل کی بلند پروازیں تو ضرور کرتے ہیں لیکن انہیں رسوم اور روایات کا پابند ہونا پڑتا یے چہ جائیکہ کسی کو علم ہی نہ ہو کہ اس فن پارے کا مقصد اور معنی کیا ہے۔ کلاسیکی ادب اور فن میں لوگوں کی دلچسپی کا دوبارہ بڑھنا نشاۃ ثانیہ عہد کی ایک بہت بڑی ترقی تھا لیکن اس کا بنیادی مقصد اپنے عقائد کی تبلیغ اور اپنے جاہ و ہشم کو بڑھانے کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔ امیر اور متمول افراد تاریخ پر گہری نظر رکھتے تھے۔ انہیں بہتر معلوم تھا کہ کون کیا تھا، ان کے اعمال کیسے تھے، اور فن میں ان کی کیا خصوصیات تھیں۔ مثلاََ، عیسیؑ کے لمبے بال تھے، ڈیانا ایک کمان یا نیزہ اپنے پاس رکھتی ہے، اور سیںٹ فرانسس کے قریب جانور رہا کرتے تھے۔ یقیناََ، تاریخی حوالوں سے لبریز تصاویر کی مانگ بہت زیادہ تھی کیونکہ اسے سے پڑھے لکھے افراد کو موقع فراہم ہوتا کہ وہ کھانے کی میزوں پر اسے موضوع بحث بنا کر اپنا گہرا تاریخی علم جھاڑ سکیں۔ لورینزو ڈی پیٗرفرانچیسکو ڈی میڈیچی کی جانب سے ساندرہ بوتاچیلی (۱۴۴۵ تا ۱۵۱۰ء) کے ہاتھوں بنوائی گئی پریماویرا تصویر تمثیل نگاری کی زبان کی ایک شاندار اور واضع مثال ہے
ان وارثان فن کے مطالبات کے نتیجے میں مایوسی سے بچنے کے لیے ان وارثان اور فنکاروں کے مابین معاہدے ہوتے تھے۔ کسی مجسمے، تصویری، بپتسماتی فوارے یا مقبرے کے ڈیزائن کی تفصیل پہلے ہی واضح کر دی جاتی۔ بعض اوقات ایک چھوٹا خاکہ بھی تیار کیا جاتا تھا جو کہ بعد ازاں معاہدے کا حصہ بن جاتا۔ ۱۴۶۶ء میں پاجوُا شہر میں ہونے والی ایک ایسے معاہدے کا اقتباس پیش ہے جس میں خاکہ بھی شامل تھا۔
اس خط کو پڑھنے والے تمام افراد پر یہ امر روشن ہو جانا چاہیے کہ برنارڈو ڈی لازارو نے مصور ماسٹر پئیترو کالزیتا کے ساتھ سینٹ اینیتھنی کے گرجا گھر میں ایک چھوٹی عبادت گاہ، جسے یوکارسٹ چیپل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، تعمیر کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ اس چھوٹی عبادت گاہ میں اسے دیوار کے نیلے پس منظر پر چار مبشر پیغمبروں کی تصاویر سنہری ستاروں کے ساتھ کندہ کرنی ہیں۔ اس چیپل میں موجود پتھر کے تمام حصوں کو وہاں موجود پتھر سے بنائی گئی اشیاء اور ستونوں کی طرح سنہری اور نیلے رنگ سے مزین کیا جائے۔ مذکورہ بالا حصے میں ماسٹر پئیترو کو اس شیٹ پر موجود ڈیزائن کی مانند تصویر کشی کرنی ہے۔ انہیں اسی سے مشابہت رکھتا ڈیزائن بنانا ہے لیکن چند مقامات پر تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ماسٹر پئیترو مذکورہ بالا تمام کام اگلے ایسٹر کے تہوار تک مکمل کرنے کا وعدہ کرتا ہے اور مزید یہ کہ وہ یقین دہانی کرواتا ہے کہ یہ تمام کام بہترین انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچے گا اور یہ کہ یہ اس قدر مضبوط اور مستحکم ہوگا کہ کم از کم ۲۵ سال تک موجود رہے۔ کسی بھی قسم کے نقصان کی صورت میں وہ ہمیں نقصان کا سود سمیت ازالہ بھرنے کا مجاز ہوگا۔
(ویلچ، ۱۰۴)
کسی بھی کام کا معاوضہ معاہدے میں باقاعدہ طور پر درج ہوتا اور مذکورہ بالا مثال کی طرح مکمل ہونے کی تاریخ بھی مقرر کر دی جاتی تھی باوجود اس کہ معاہدے میں تبدیلی کرنے کی خاطر گفت و شنید دیر تک چلتی رہتی۔ سرپرستوں اور فنکاروں کے مابین قانونی مقدمہ بازی کی بنیادی وجہ مقررہ تاریخ تک کام کا مکمل نہ ہونا تھا۔ کچھ کاموں میں خاص اور مہنگا سامان ( سونے کی پتی، پچکاری گئی چاندی اور مہنگے رنگ) درکار ہوتا لیکن فنکار کو مقرر کی گئی لاگت سے بڑھنے سے بچانے کے لیے معاہدے میں اس قسم کے سامان کی تعدار کو بھی مختص کیا جاتا۔ سونے کے کسی کام یا کسی خاص پتھر کے مجسمے کا کام ہوتا تو مکمل تخلیق شدہ صورت میں اس کا وزن بھی معاہدے میں واضح کر دیا جاتا تھا۔ تصاویر کے لیے، فریم کی قیمت بھی معاہدے میں درج ہوتی تھی۔ فریم ایک ایسی چیز تھی جو بعض اوقات تصویر سے زیادہ مہنگا ہوتا تھا۔ آزاد منش ماہریں فن کی جانب سے کام پسند نہ آنے کی صورت میں سرپرست معاہدے کی تمام شقوں سے روگردانی کر سکتا تھا۔ معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد، اس کی ایک نقل سرپرست، فنکار اور مقامی مصدق کے پاس ہوتی۔
کام کی تکمیل
طے کی گئی شرطوں پر، فنکار کو کام کی تکمیل کے دوران اپنے سرپرست کی جانب سے مختلف اوقات پر دشواری اور دخل اندازی کا سامنا رہتا۔ سرپرستوں میں سے مقامی اور بلدیاتی ادارے سب سے زیادہ سخت گیر ہوتے۔ منتخب شدہ کمیٹیاں(اوپیرے) اس کام کا تفصیلی جائزہ لیتی اور فنکاروں کو کام سونپنے کے لیے مقابلے کا بھی انعقاد کیا جاتا۔ معادہ طے پانے کے بعد بھی کام کی تکمیل کا مرحلہ وار جائزہ لینے کے لیے بھی ایک خاص ادارے کو تعینات کیا جاتا۔ ان اوپیرے کے ساتھ ایک مسلئہ یہ تھا کہ ان کے ممبران (ان کے سربراہ، اوپیراؤ کے علاوہ) وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہتے تھے۔ اس طرح یہ کام، جس کو روکا تو نہیں جاتا تھا، لیکن بعد میں آنے والے افسران کے نزدیک کام شروع کروانے والے ممبران کی نسبت زیادہ مہنگا ہوتا تھا۔ دوناتیلو (۱۳۸۶ تا ۱۴۶۶ء) کے لیے پاجُوا میں فوجی سپہ سالار (کوندوتئیرے) ایراسمو دا نارنی (۱۳۷۰ تا ۱۴۴۳ء) کے لیے بنایا گیا مجسمہ، گتامیلاتا کے حوالے سے فیس ایک ہمیشہ جاری رہنے والا مسلئہ رہا حالانکہ نارنی اپنی وصیت میں اس مجسمہ کی فیس مقرر کر گیا تھا۔
کچھ سرپرست یقیناََ بہت خاص تھے۔ پئیترو پیروجینو (۱۴۵۰ تا ۱۵۲۳ء) کے نام، مانچوا کے اس وقت کے حاکم، جیافرانچیسکو دوم گونانزا (۱۴۶۶ تا ۱۵۱۹ء) کی بیوی ازابیلا دی ایستے (۱۴۷۴ تا ۱۵۳۹ء) کے خط میں اپنی تصویر محبت اور عفت کی جنگ میں اپنی ذاتی تخیلاتی پرواز کرنے کی اتنی اجازت نہیں ہوتی۔ ازابیلا لکھتی ہے:
ہماری شعری تخلیق عفت و پاک بینی اور ہوس کے مابین جنگ ہے جو کہ حقیقتاََ پلاس اور ڈیانا کی وینس اور کیوپڈ کی جنگ ہے۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پلاس کیوپڈ کے سنہری تیر کو توڑنے کے بعد اور اس کی سہنری کمان توڑنے کے بعد اسے تباہ کرنے لگا ہے؛ ایک ہاتھ سے وہ اسے اس کی آنکھوں پر لی گئی پٹی سے پکڑے ہوئے ہے اور دوسرے سے اپنا نیزہ اٹھا کر اسے قتل کرنے لگا ہے۔۔۔۔
خط اسی طرز میں آگے بڑھتا ہے اور اس کا اختتام ایسے ہوتا ہے:
میں آپ کو یہ تمام تفصیلات ایک چھوٹے سے خاکہ میں بھیج رہی ہوں تا کہ تحریری اور تصویری تفصیلات کے ساتھ آپ اس معاملے میں میری خواہشات کا پاس رکھ سکیں گے۔ لیکن اگر آپ کو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صرف ایک تصویر میں اس قدر کردار ہیں تو یہ آپ کی اپنی منشا پر منحصر ہے کہ آپ ان کی تعداد کم کر سکتے ہیں، لیکن اس بات کا خیال رکھا جائے کہ پلاس، ڈیانا، وینس اور کیوپڈ کے کرداروں پر مشتمل بنیادی حصے کو ہذف نہ کیا جائے۔ اگر کسی قسم کی کوئی پریشانی نہ آئے تو میں خود کو مطمئن تصور کروں گی۔ آپ کے پاس اختیار ہے کہ آپ انہیں کم کر سکیں لیکن کسی شے کا اظافہ قطعاََ مت کیجیے گا۔ اس تفصیل کے ساتھ راضی ہو جائیں۔
(پاؤلیتی، ۳۶۰)
فن مصوری سرپرستی کی دلچسپی کا مرکز و محور رہا تھا اور حیرت کی بات ہے کہ لیونارڈو ڈا ونچی کا اپنی تصویروں کے کرداروں کا تین چوتھائی منظر یا تصاویر میں زیورات جیسی روایتی علامات کی عدم موجودگی کے بارے میں خریدار اور گاہک کیا سوچتے تھے۔ سسٹین چیپل کی چھت تعمیر کرتے وقت پوپ اور مائیکل اینجلو (۱۴۷۵ تا ۱۵۶۴ء) کے درمیان قضیہ کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس نے کام کی تکمیل سے پہلے اسے دیکھنے کی اجازت نہیں دی۔
آخر کار، اپنے سرپرست کردہ کام کی تکمیل کے دوران ان وارثان کا کام کا جائزہ لینا عام تھا۔ اس کی واضع مثال ہمیں پاجُوا کے سکرُویئنی چیپل (گرجا گھر) میں جیوٹو کی ’آخری فیصلے‘ کی تصویر جس میںدوزانو انریکو سکروینی کی ملتی ہے۔ ساندرو بوتاچیلی (۱۴۴۵ تا ۱۵۱۰ء) نے میجائی کی تعریف، جو کہ ۱۴۷۵ء میں بنائی گئی تھی، میں پورے میڈیچی خاندان کو شامل کیا۔ بالکل اسی طرح، بسا اوقات اپنے ہی کام میں اپنی تصاویر بھی شامل کر دیتے تھے۔ مثال کے طور پر، فلورنس کی جائے بپتسمہ میں کانسی کے دروازوں میں لورینزو غیبرتی (۱۳۷۸ تا ۱۴۵۵ء) نے اپنا بت بھی بنا دیا۔
کام کی تکمیل کے بعد کا ردعمل
معاہدے کی بندشوں اور قدغنوں کے باوجود، ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کئی فنکاروں نے معاہدے کی ان دیواروں کو توڑنے کی ہر ممکن کوشش کی اور بسا اوقات کام کرتے کرتے اگر تھک جاتے تو نئے طریقے سے اسے پرکھتے۔ کچھ سرپرست ایسے تھے جو اس قسم کی آزادی فراہم کرتے خاص طور پر جب وہ مشہور فن کاروں کے ساتھ کام کر رہے ہوتے۔ تاہم، حتی کہ مشہور فن کار بھی بعض اوقات خود کو مصیبت میں پاتے۔ یہ عام بات تھی کہ کسی مصور کی تصویر ک کوئی ستائش نہ کرے اور پھر اسی تصویر کو کوئی دوسرا مصور دوبارہ تیار کرے۔ سسٹین چیپل میں اپنی تصاویر مکمل کرتے ہوئے یہ مسلئہ مائیکل اینجلو کو بہت پیش آیا۔ اہل کلیسا نے چند تصاویر میں فحاشی پر اعتراض کیا اور انہیں مکمل طور پر ہذف کرنے کا مشورہ دیا۔ ایک سمجھوتہ طے پایا گیا اور ان کرداروں کو ڈھانپ دیا گیا۔ تاہم، یہ امر مسلم ہے کہ کئی فنکاروں کی کام کو دوبارہ مکمل کرنے کے لیے سرپرستی بھی کی جاتی اور اس سے اشارہ ملتا ہے کہ وارثان فنون ان خریداریوں کے بجائے ویسے ہی مطمئن تھے اور موجودہ طور کی طرح ان تصاویر پر دعوی کرنے کے حوالے سے اختلاف رہتا تھا۔
یہ سرپرست ایک فنکار سے مایوس بھی ہو جایا کرتے تھے۔ اس کی وجہ اکثر کام کا کبھی مکمل ہی نہ ہونا تھی کیونکہ یا تو وہ ڈیزائن پر کسی قسم کے اختلاف کی وجہ سے ویسے ہی دستبردار ہ گئے یا پھر یہ کہ وہ ایک ساتھ اس قدر کام نہیں کر سکتے تھے۔ مائکل اینجلو روم سے بھاگ گیا اور پوپ جولییس (۱۵۰۳ تا ۱۵۱۳ء دور) کے مقبرے کا ڈیزائن وجہ تنازع تھا۔ جبکہ لیونارڈو ڈا ونچی کام مکمل نہ کرنے کی وجہ سے بدنام زمانہ تھا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اس کا حد سے زیادہ حاضر دماغ کچھ عرصہ کے بعد کام میں اپنی دلچسپی کھو چکا ہوتا۔ کچھ معاملات میں یہ بھی دیکھا گیا تھا کہ استاد فنکار کچھ کام اپنے شاگردوں سے مکمل کروانے کے لیے چھوڑ دیتا تھا۔ یہ ایک اور ایسا نکتہ تھا جس پر ایک ذہین وارث معاہدے میں کوئی شق شامل کر سکتا تھا۔ اگرچہ معاہدے کی خلاف ورزی پر مقدمہ بازی عام تھے اور موجودہ دور کے مطابق کسی فنکار کی سرپرستی کرنے کی مانند نشاۃ ثانیہ عہد کے سرپسرت بھی کام کی تکمیل پر خوش، حیران، پریشان یا آگ بگولہ بھی ہو سکتے تھے۔