شیطان یا ابلیس ، یہودیت، مسِیحت اور اسلام کی مغربی روایات میں سب سے مشہور کرداروں میں سے ایک ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ قدیم دنیا میں شیطان کا تصور دیر سے آیا۔ یہودی بائبل میں شیطان کا ذکر اُسکے ابلیسی رُوپ میں نہیں ہے۔ اِسکا تصور اچیمینیڈ سلطنت (Achaemenid Empire) میں اُبھرا، جِسکا عروج تقریباؑ ۵۵۰ قبل از مسیح سے ہُوا اور اسے اس وقت فارسی حکمرانی کے تحت رہنے والے یہودیوں نے اپنایا۔ اس کا رسمی نام، شیطان، عبرانی لفظ 'ہا-شیطان' سے ماخوذ ہے۔ 'ہا' کا مطلب ہے 'دی' اور 'شیطان' کا مطلب ہے 'مخالف' یا 'مُخالفت'۔ یہ نام اس کے حتمی فعل کو خدا کی تخلیق کی مخالفت کرنے والا بیان کرتا ہے۔ یونانی میں اِسے 'diabolos' اور انگریزی 'devil' کہتے ہیں اِس کا مطلب ہے 'الزام لگانے والا' اور 'گالی دینے والا' جِس سے اُسکے کردار کا پتہ چلتا ہے۔ شیطان کا تصور وقت کے ساتھ ساتھ مرحلہ وارمُختلِف انداز میں ظاہر ہوتا گیا۔
بُرائی سے پیدہ ہونے والے مسائل
برائی ہمیشہ سے موجود ہے۔ انسانوں کو قدرتی آفات (زلزلے، سیلاب)، لوٹ مار اور عصمت دری کے ساتھ جنگوں، بیماری، طاعون، اور بچوں کی اموات، انسانوں کی بنائی ہوئی برائی جیسے قتل ، چوری، اور موت کا سامنا کرنا پڑا۔ جیسا کہ قدیم لوگوں نے اپنے مذہبی نظام کی تعمیر کی اِنہیں برائی کے وجود کی وضاحت اور معقولیت کی ضرورت محسُوس ہُوئی۔ تخلیق کے افسانوں میں اکثر ایک اعلی دیوتا یا دیوتاؤں کے بادشاہ کو نامزد کیا جاتا تھا جو دوسرے دیوتاؤں کے ساتھ ساتھ فطرت سمیت ہر چیز پر حُکمرانی کرتا تھا۔۔ اس حیثیت میں وہ یعنی دیوتا اچھائی اور برائی دونوں کے ذمہ دار تھے۔اس قابلیت کو بیان کرنے کی اصطلاح Omnipotence (کُلی طور پر طاقتور) ہے۔ استثنا 28 میں، خدا اعلان کرتا ہے کہ وہ خوشحالی اور مصیبت دونوں پر اِختیار رکھتا ہے۔ تخلیق کے بہت سے افسانوں میں یہ بتایا گیا کہ برائی کیسے اور کیوں پیدا ہوئی۔
پیداِئش یعنی تخلیق کو اگر سمجھنا ہو تو مسوپتامی نظریہِ تخلیق سے اور کوِئی بہتر نہیں ہے۔۔ میسوپوٹیمیا کی تخلیق بابت اینوما ایلش (Enuma Elish) دیوتائی افسانوں کیُطابق دیوتا خود برائی کے ذمہ دار تھے۔ وہ منحوس اور انتشار پسند تھے اور انہوں نے انسانوں کو محض غُلام کے طور پر تخلیق کیا تاکہ وہ انہیں قربانیاں دیں۔ اسرائیل کے خدا کو اس کے برعکس دکھایا گیا ہے۔ وہ کبھی دلفریب نہیں ہوتا، اُسکا ایک الہی منصوبہ ہوتا ہے، اور اس کی تخلیق کردہ ہر چیز اچھی سمجھی جاتی ہے۔باغِ عدن میں آدم اور حوا کی 'زوال' کی داستان سے یہ ظاہر ہُوا کہ برائی خدا کی نہیں بلکہ انسانوں کی غلطی سے شروع ہوئی۔ ان کی نافرمانی خوراک پیدا کرنے کے لیے مرد کی جدوجہد اور عورت کو بچے کی پیدائش میں تکلیف کا باعث بنی۔ لیکن سب سے سخت سزا ان کی لافانییت کا کھو جانا تھا۔ آدم اور حوا سے سرزد ہونے والے گناہ نے سب سے بڑی برائی یعنی موت کو جنم دیا۔ ان کی اولاد کے طور پر ہم سب ایسی ہی قسمت کے مُستحق ہیں ۔
انسان ہونے کے ناطے، لوگوں نے اپنے تجربات کو دیوتاؤں کے ساتھ مُنسلک کیا۔ بادشاہوں کے پاس امرا اور مشیروں کے دربار تھے۔ جیسے زمین پر اسی طرح آسمانوں میں۔ کسی بھی عدالت کی طرح اس میں بھی اعلیٰ اور ادنیٰ اہلکار تھے۔ یہودیت میں اعلیٰ ترین فرشتے تھے۔ یونانی میں نچلے درجہ کے دیوتا ڈیمن (daemons) تھے جو شروع میں تو غیر جانبدار تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ برائی کے مُرتکب ٹھہرے۔
پیدائش کی کِتاب کیمطابق خدا زمین کو تخلیق کرنے کے لیے پیش رفت کرتے وقت اپنی آسمانی عدالت میں "خدا کے بیٹے"،یعنی فرشتوں سے بات کرتا ہے۔ تخلیق کا کام مُکمل ہونے پر، ہمیں پیدائش 6 باب میں ایک حیران کُن حوالہ ملتا ہے۔ ہم پڑھتے ہیں کہ "خدا کے بیٹوں" نے انسانی عورتوں کے ساتھ جماع کیا، جس سے "نیفیلم" ("Nephilim")، قدیم جنات پیدا ہوئے۔ اس حکایت کا مقصد یہ بتانا ہے کہ خدا نے بُرائی کے نتیجہ میں زمین پر سیلاب کیوں بھیجا۔ یونانی دیوتائی افسانوں کیمطابق مرد دیوتاوؑں نے خاتون دیویوں سے جماع کیا۔ زیوس کی مثال خاص طور پر ہے۔تاہم، اسرائیلی روایت نے اسکو مسترد کر دیا کیونکہ یہ اختلاط بت پرستی کے عظیم گناہ کا باعث بن سکتی تھی۔
ہا-شیطان اور ایوب کی کتاب
ایوب کی کتاب(600 قبل از مسیح) کا ایک قدیم ترین متن ہے جو ایک ایسے مسلے کا مُفصل بیان ہے جِسمیں بسبب بُرائی میں گھِرے ہوئے شخص کی قُدرت کی طرف سے ہر قِسم کی مدد فراہم ہوئی ۔ اِسے انگریزی میں تھیوڈیسی (theodicy) کہتے ہیں۔ زمانہ جدید میں اِسکا مفہوم یہ ہے "اگر خدا اچھا ہے تو وہ برائی اور تکلیف کو کیوں رہنے دیتا ہے؟" کتاب کا آغاز فرشتوں کے بظاہر خُدا کو اطلاع دینے کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک فرشتہ ہا-شیطان بھی ہے، جس کا کام دنیا کا سفر کرنا تھا کہ وہ انسانوں کے سامنے 'رکاوٹیں' (اس کے نام کا مطلب بھی یہی ہے) ڈالے تا کہ اُن میں اچھے اور بُرے کی اِمتیاز کی جائے۔ اس کردار میں، ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے اِستغاصہ کے طور پر کام کرتا ہے۔ واپسی پر اُسنے خُدا کے بندہ ایوب کی بابت یُوں کہا کہ ایُوب اِس قدر خوشحال اِس لئے تھا کہ وہ خُدا کی طرف سے اِنتہائی پُر فضل تھا۔
شرط جاری رہی۔ شیطان خُدا کو کہتا ہے کہ وہ ایوب کی تمام خوشحالی، اس کی زندگی کے علاوہ ہر چیز کو تباہ کر دے۔ خدا کو یقین ہے کہ ایوب اس سے منہ نہیں موڑے گا۔ (چُناچہ شرط کیمُطابق) ایوب کے بچے مارے گئے، اس کی فصلیں اور ریوڑ تباہ ہو گئے اور وہ خوفناک بیماریوں کا شکار ہو گیا۔ ایوب کے تمام دوست اُسے تسلی دینے اور اُسے قائل کرنے کے لیے آتے ہیں کہ اُس نے ضرور گناہ کیا ہوگا کیونکہ خدا انصاف کرنے والا خُدا ہے۔ ایوب لگا تار اصرار کرتا ہے کہ اس نے کبھی گناہ نہیں کیا؛ خدا نے اسے نا انصافی سے سزا دی ۔ مایوس ہو کر، ایوب خدا سے وضاحت کے لیے پکارتا ہے، اور آندھی سے ایک آواز اسے نصیحت کرتی ہے: "تم کہاں تھے جب میں نے زمین کی بنیاد رکھی؟" (ایوب 38:4) دوسرے الفاظ میں: خُدا کہتا ہے کہ تُمہاری ایک فانی بشر ہونے کی حثیت سے سوال کرنے کی جُرت کیسے ہُوِئی۔؟' ایوب پھر عاجز ہو کر خُدا کے استحقاق اور طاقت کو تسلیم کرتا ہے۔
ہا-شیطان یہودی صحیفوں میں شاذ و نادر ہی ظاہر ہوتا ہے۔ چند حوالوں میں وہ انسانوں کی مخالفت کرتا ہے خدا کی نہیں۔ باغٖ عدن میں، ابلیس اس کام کو اِس طرح سر انجام دیتا ہے کہ آدم اور حوا (نیک و بد کی پہچان کے درخت) کا انتخاب کیسے کرتے ہیں انبیاء کی اکثر کتابوں میں بت پرستی کے گناہ کی وجہ سے برائی کا الزام لگایا گیا ہے۔ خدا اب بھی اسرائیل کو سزا دینے کا اِختیار رکھتا ہے۔
فارسی یا زرتشتی دور
جب یروشلم کو سلطنتٖ بابل (587 قبل از مسیح) نے فتح کیا اور تباہ کر دیا تو کچھ یہودیوں کو بابل میں قید کر لیا گیا۔ سائرس اعظم نے پھر 550 قبل مسیح میں سلطنتٖ بابل کو فتح کر کے فارس سلطنت قائم کی۔ فارس کا ریاستی فرقہ زرتشتی تھا، جس کی بنیاد زرتشت پیغمبر نے رکھی تھی۔ برائی کو اچھائی کے مخالف پولر (polar) کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ (Ahura Mazda) اهورا مزدا ('حکمت لارڈ') جِِو پاکیزہ ہونے کی وجہ سے ہر چیز کا ماخذ اور درُوج یعنی (chaos) اِضطراب کو اِسکے مُخالف سمجھا جاتا تھا۔ درُوج کو انگرا مینیو (Angra Mainyu) ('جھوٹا'، 'دھوکہ') کے نام سے منسوب کیا گیا، جسے احریمان (Ahriman) بھی کہا جاتا تھا ۔ آسمان، زمین اور تمام انسان اِسی اصول کی حدُود میں ہیں۔
سائرس نے یہودیوں کو یروشلم (539 قبل از مسیح) واپس آنے کی اجازت دی، جبکہ وہ جو ٹھہرے ہوئے تھے۔ انہوں نے قدیم فارسی مذہب کے بہت سے اصُولوں کو اپنا لیا، اور ہا-شیطان کی بابت جو اُنکے پہلے خیالات تھے، اُنکو زرتشتی خیالات کے ساتھ ضِم کر لیا۔ اب وہ صرف شیطان تھا یا، یونانی میں، diabolos، شیطان، لہازہ یہودیوں نے بُراِئیوں کا مُوجب خدا کے بجائے شیطان کو ٹھہرا دی۔
بحیرہ مردار کے طومار
قمران (150 قبل از مسیح) میں آباد یہودی فرقہ Essenes کی پہلی ادبی تحریروں میں ہمیں ابلیس کی (اِنسانی یا کِسی دُوسری شکل میں) نمائدگی کرنے کا طریقہ کار نظر آتا ہے۔ مُختلِف فِرقوں بشمول یہودیوں میں، شیطان کو ایک نفاق پیدہ کرنے والی ہستی سمجھا گیا۔۔ ان کی تحریروں کے مطابق، خدا نے انسانوں میں دو طرح کی روحیں پیدا کی تھیں: روشنی کا راستہ اور تاریکی کا راستہ۔ بد رُوحیں شیطان کے قابو میں تھیں۔ اس نے ان کو اندھیرے میں رہنے والوں کو برائی کرنے کے لیے بھیجا ۔Essenes نے شیطان اور اس کے ایجنٹوں کے لیے علامتی نام رکھے, جیسا کہ بیلیال (Belial) (عبرانی میں 'بیکار' کے لیے) جو آخری جنگ (The War Scroll) میں روشنی والوں کے خلاف "اندھیرے کے بیٹوں" کی قیادت کرے گا ۔ شیطان کے عدالت میں فرِشتوں کی درجہ بندی ایسے ہی ہے جیسے آسمانی مُقاموں میں فرِشتوں اور مہاراج فرِشتوں کی درجہ بندی۔۔ بیلزبب (Beelzebub) جہنم کی شہزادیوں میں سے ایک تھی۔ اور ایک قدیم کنعانی دیوی سے ماخوذ تھی جو مکھیوں (بیماریوں کے پھیلانے والے) سے چھٹکارا پانے کے لیے جانی جاتی تھی۔۔۔
قمران (Qumran) کے طوماروں میں مختلف الہامی متن شامل تھے۔ حنوک کی کتابیں "خدا کے بیٹے" کے بارے میں مزید تفصیلات سے بھری ہوئی ہیں۔ انسانوں کو دھات کاری اور جادو کی تعلیم دینے پر ان کی مذمت کی گئی اور انہیں جنت سے باہر پھینک کر اور پاتال (شیول کا یہودی تصور، مردہ کی سرزمین) میں جکڑے جانے کی ہمیشہ کے لئے سزا دی گئی (شیول کا یہودی تصور، مردہ کی سرزمین) ۔
ایسے بھی متن ہیں جِن میں خُوشیوں کی تقریبیں اور تسلی دینے والے شیاطین کے بارے میں لِکھا گیا ہے ۔ یہاں ابلیس کا نام مستما (Mastema) ہے جِس کے معنی نفرت یا مُخالفت ہیں۔ مستمہ خدا سے اونچا بننا چاہتا تھا اسلئے اِسنے خُدا کیخاف بغاوت کی۔ لہازہ اُسے آور اُس کے ساتھی فرشتوں کو اتھاہ گڑھے میں پھینک دیا گیا۔ شیطان گرا ہوا فرشتہ بن گیا۔ خدا (نوح کے) سیلاب کے بعد تمام شیاطین کو تباہ کرنا چاہتا تھا، لیکن مستیما نے خدا سے درخواست کی کہ وہ اُسکی طاقت کا دسواں حصہ اسے دے تا کہ وہ انسانوں کو طاعون جیسی سخت سزا دے کیونکہ آدمیوں کی برائی زیادہ تھی۔ (10:8)۔ خدا کے حکم سے مستما وہ فتنہ بن گئی جِسکا ذِکر پہلے سے لِکھی گئی کہانیوں میں موجُود ہے۔۔ جوبلیز میں، (jubilees) میں بھی مستما کو اِسحاق کی قُربانی بابت ابراہام کو اِمتحان میں ڈالا گیا تھا۔ دوسرے الفاظ میں، خدا کی قادر مطلقیت برقرار رہی ۔ شیطان خُدا کی اجازت کے بغیر اپنا کام نہیں کر سکتا تھا۔
نیا عہد نامہ
پولس رسُول کے خطُوط اور اناجیل میں یہ خیال مِلتا ہے کہ ابلیس دُنیا کا سردار ہے اور اِسکا ذِکر پولس رسُول کے شاگِردوں میں سے ایک نے کیا ہے۔
ؒخُدا کے سب ہتھیار باندھ لو تا کہ تُم ابلیس کے منصُوبوں کے مُقابلہ میں قاِئم رہ سکو۔ کیونکہ ہمیں خُون اور گوشت سے کُشتی نہیں کرنا ہے بلکہ حکُومت والوں اور اِختیار والوں اور اِس دُنیا کی تاریکی کے حاکموں اور شرارت کی اُن رُوحانی فوجوں سے جو آسمانی مقاموں میں ہیںؒ۔(اِفسیوں 6 باب آیات 11 تا 12)۔
پولس نے اکثر بدرُوحوں کا بطور ابلیس کے ایجنت (کارکن) کے طور پر ذکر کیا۔ قید کی حالت میں پولس رسُول نے لِکھتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی کلیسیا کو اِس لئے نہ مِل سکا کیونکہ ابلیس نے رُکاوٹ ڈالی (1 تھیسالونیکیوں باب ۲ آیت 17, 18)۔ پولس رسُول کی(جِسمانی کمزوری کے باوجُود) کاوشوں کا اندازہ ۲ کرنتھیوں آیت 7 تا 9 سے لگایا جا سکتا ہے جِسمیں اُسنے یہ کہا کہ میرے جِسم میں یہ کانٹا اِسلئے چًبھویا گیا تا کہ میں پُھول نہ جاوؑں کیونکہ اُسنے کہا کہ تیرے لئے میرا فضل ہی کافی ہے. ؒاور مُکاشفوں کی زیادتی کے باعث میرے پھُول جانے کے اندیشہ سے میرے جِسم میں کانٹا چُبھویا گیا یعنی شیطان کا قاصِد تاکہ میرے مُکے مارے اور میں پُھول نہ جاوں۔ اِسکے بارے میں میں نے تین بار خُداوند سے اِلتماس کی کہ یہ مُجھ سے دُور ہو جائے۔ مگر اُس نے مُجھ سے کہا کہ میرا فضل تیرے لئے کافی ہے کیونکہ میری قُدرت کمزوری میں پُوری ہوتی ہےؒ۔" (2 کرنتھیوں 12 باب آیات 7 تا 9)۔ پولس رسُول نے اس (تکلیف) کو خُدا کی طرف سے طاقت جانا تا کہ ابلیس کا اِمتحان کر سکے۔ پولس رسُول عام طور پر یہ کہتے تھے کہ ایماندار مسیح میں رہتے ہوِئے وہ کاِئنات (یا دُنیا) میں مسیح کی محافظت میں ہوتے ہیں وہ ابلیسی قوتوں کے زیر اثر نہیں ہوتے۔
مرقس کی انجیل جو تقریباؑ (c. 70 CE) لِکھی گئی اِسمیں شیطان کو بڑا طاقت ور دکھایا گیا ہے۔ مرقس نے یسوع کی بشارت کا کام بیان کرنے کے لیے ایک عام دقیانوسی, کرشماتی اور جارہانہ تصور کا استعمال کیا، جس نے پوری رُومی سلطنت میں معجزات انجام دیے۔ یُونانی دیوتاوؑں کو ایک برکت سمجھا گیا، اور یہ ایک ایسا دعویٰ تھا کہ ان کی صلاحیتیں (در اصل) دیوتاوؑں کی طرف سے تحفہ تھیں۔ exorcist وہ شخص تھا جس نے بدروحوں کو نکال دیا۔ پہلی صدی تک، جسمانی , ذہنی اور معذوری بیماریوں کو شیاطین کے قبضے کے طور پر سمجھا جاتا تھا۔ مرقس نے اپنے بشارتی کام میں اِس بات پر زور دیا کہ اُنہیں ایسے کام کرنا ہے جیسے یسوع اور موجودہ ابلیسی طاقتوں کے درمیان جنگ ہو۔
فوراؑ روح اسے بیابان میں لے گیا جہاں وہ بیابان میں چالیس دن تک شیطان اُسے آزماتا رہا۔ وہ جنگلی جانوروں کے ساتھ تھا، (مگر) فرشتے اس کے ساتھ تھے۔ (مرقس 1 باب آیات 12 تا 13)۔
مرقس کو شیطان کے کردار کی وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں تھی. اس نے فرض کیا کہ اس کے قارئین کو یہ معلوم ہے۔ متی اور لوقا دونوں نے اس منظر کو بڑھایا (متی 4 باب آیات 1 تا 11 لوقا 4 باب آیات 1 تا 13 )۔ شیطان نے، آزمائش کرنے والے کے طور پر اپنے کردار میں، یسوع کو تین آزمائشوں کے ساتھ آزمایا لیکن یسوع ہمیشہ اُسے کلام کی بُنیاد پر جواب دیتا رہا۔ (اِس موقع پر) یہ بات اہم ہے کہ یسوع اس دنیا کی بادشاہتوں کو کنٹرول کرنے کے شیطان کے دعوے سے اختلاف نہیں کرتا ہے۔
مرقس کے شاگرد اکثر یسوع کی شناخت کے بارے میں الجھن میں رہتے ہیں، تمام شیاطین اسے جانتے ہیں اور اس کی برتری کو تسلیم کرتے ہیں۔ مرقس 5 باب آیات 1 تا 13 میں دیے گئے معجزہ میں بدوُحوں کے ایک گروہ کو (Legion) کہا گیا ہے جو مرقس کیلئے شاہد حیران کُن نہ ہو اِس لئے کہ رُومی فوج میں ایک دستہ کو یہی کہا جاتا تھا۔ مرقس اور دوسروں نے یسوع کے مخالفین کو شیطان کے زیر اثر کے طور پر پیش کیا۔ لوقا اور یوحنا (کی اناجیل) میں، شیطان یسوع کو دھوکہ دینے کے لیے "یہوداہ میں داخل ہوا" (لوقا 22:3)۔ یسوع کی موت کے لیے الزام کی انتہا یوحنا 8:40 میں اپنی بلندیوں پر پہنچ گئی۔ یوحنا کی انجیل کیمُطابق ، یہودی کبھی بھی نجات حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ وہ اپنے "سچے باپ، شیطان" کی اولاد ہیں۔
یوحنا جو پاٹموس (Patmos) کے جزیرے میں قید تھا اپنی کتاب مکاشفہ (c. 90-100 CE) میں دُنیا کی تناہی کی پیش گوئی کرتا ہے کہ جب خدا آخری دنوں میں انسانی معاملات میں مداخلت کرے گا اور روم کو مسیحوں کے خلاف کئے گئے ظلم و ستم کی سزا دے گا۔ اس نے یہ دعویٰ بھی شامل کیا کہ شیطان کو جہنم کے گڑھوں میں جکڑ دیا گیا تھا تاکہ وہ اپنے کام کے لیے اپنے اہلکاروں پر بھروسہ کرے۔ اُسکے مُطابق سب سے بڑے اہلکار کو 'حیوان' اور 'دھوکہ دینے والا' کہا جاتا ہے۔ 'مسیح مخالف' کی اصطلاح مکاشفہ میں نہیں ہے، بلکہ یوحنا کےتینوں خطوط میں ہے۔ دھوکہ دینے والا کسی اچھے شخص کے طور پر ظاہر ہو گا اور دنیا کو اپنی پیروی کیلئے جمع کرے گا ۔ آپ اس کے پیروکاروں کو '666' کے نشان سے جان لیں گے جو وہ اپنے ساتھ رکھیں گے۔
یوحنا کی رویا میں سے ایک میں، اس نے یسعیاہ 14 کا حوالہ دیا، جو بابل کے بادشاہ کے خلاف ایک مباحثہ تھا۔ یسعیاہ نے اس بادشاہ کو , جس نے اپنے آپ کو الہی تصور کرنے کی وجہ سے "دن کا ستارہ" کہا یہ کہہ کر طعنہ دیا اے " صبح کے ستار ے یا صبح کے بیٹے تم آسمان سے کیسے گرے" جب جیروم نے چوتھی صدی عیسوی میں عبرانی صحیفوں کا لاطینی میں ترجمہ کیا تو وہ جانتا تھا کہ رومیوں نے اپنے صبح کے ستارے کا نام - سیارہ وینس- لوسیفر رکھا۔ ۔ لہازہ لوسیفر قرون وسطی میں سب سے مشہور نام بن گیا۔
مکاشفہ کی کتاب کے بیشتر حصے میں، شیطان گڑھے میں جکڑا ہوا ہے۔ زمین پر مسیح کی 1000 سالہ حکومت کے اختتام پر، شیطان کو آخری جنگ کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے۔ طنزا ؑ مسیح کی تصویر "ایک بھیڑ کے بچے" کے طور پر دِکھائی گئی ہے لیکن آخر کار وہ اُسے شکست دیتا ہے اسے "آگ کی جھیل" میں پھینک دیا جاتا ہے، (Rev. 20:1-5)۔
"جہنم کا عذاب"
رسولوں کے اعمال میں، لوقا نے دعویٰ کیا کہ ہیڈز (Hades) (یونانی دیوتا شیول کا بادشاہ ) مصلوب مسیح کو شیول میں رکھنے کی صلاھیت نہیں رکھتا تھا۔ (Luke 2:27)۔ 1 پطرس 3 کیمُطابق یہ اعلان یسوع نے نہ صِرف قید شدہ روحوں کے لیے کیا بلکہ اُنکے کیلِے بھی جنہوں نے بہت پہلے نافرمانی کی تھی اور 4:6 کیمُطابق"ان لوگوں کو بھی خوشخبری سنائی گئی جِنہوں نے حال ہی میں وفات پائی تھی۔" دُوسری صدی عیسوی تک مسیح کی موت کے بارے مندرجہ ذیل تفصیلات شامل کی گئیں:
- گڈ فرائیڈے اور ایسٹر سنڈے کے درمیان یسوع کیا کر رہا تھا؟
- ماضی کے ایک راستباز شخص کو کیسے بچایا جا سکتا تھا اگر انہیں یسوع کو جاننے کا موقع نہ ملے؟
جب یسوع کا جسدِ خاکی ابھی قبر ہی میں تھا تو وہ رُوحانی طور پر جہنم میں گیا جہاں اس نے نیک لوگوں کی روحوں کے لیے شیطان سے جنگ کی۔ جب پتھر کو پیچھے ہٹایا گیا تو یہ نیک روحیں اس کے ساتھ آئیں (آدم، نوح، موسی، افلاطون اور ارسطو)۔ یہ خیال کہ مسیح "جہنم میں اترا [اور] تیسرے دن، وہ دوبارہ جی اُٹھا" چوتھی صدی عیسوی میں اِس ھقیقت کو (Nicene Creed) میں شامل کر لیا گیا۔ ابتدائی قرون وسطی تک، کہانی کو جہنم کی آگ ('Harrowing of Hell') کے نام سے جانا جاتا تھا۔ لفظ، 'ٹو ہیری' ('to harry') کا مطلب ایک چھاپہ یا دراندازی ہے۔ (نویں صدی میں اینگلو سیکشن (period) سے مُتعلق ایک عِلم الہلات کی بابت ایک ڈرامہ ے جِسکے مُطابق یہ (term) اِستعمال کی جاتی ہے کہ یسوع نہ صِرف (Hell) میں داخل ہُوا بلکہ جی اُٹھنے کے سبب موت پر فاتح ہُوا۔ ا ُس کے جی اُٹھنے پر وہ جو پہلے مر گئے تھے وہ بھی جی اُٹھے ۔یہ ایسے ہی ہے جیسے آٹھویں سے گیارویں صدی کے درمیان ہونے والے یورپی (Scandinavian) ممالک کے ساحلی علاقوں پر چھاپے۔
ابلیس کی خصوصیات اور بدی کا شخصیتی نشان
دوسری صدی عیسوی میں مسیحی رہنماؤں نے یہودیوں، عورتوں، بدعتیوں، اور تمام بےدین لوگوں کیلئےشخصیت سازی کا طریقہ اپنایا۔ مقامی فرقوں کا خیال تھا کہ دیوتا ان کے مندروں میں رہتےتھے، لیکن یہ شیطان کے اہلکار تھے۔ شیطان کو سب سے پہلے گریکو رومن دیوتا پین (Pan) کو جو زراعت سے متعلق تھا آدھا آدمی، آدھا بکرا کے پورٹریٹ کے ذریعہ سے ظاہر کیا گیا۔ اس طرح کُھر اور سینگ شیطان کی شناخت بن گئے۔ پین (Pan) کو ایک کھڑے فالس یعنی (عضو تناسل) سے ظاہر کیا گیا۔ ۔شیطان کو بیان کرنے کیلئے یہ نِشان عام ہو گیا۔ سب سے پہلے اِسے سیاہ اور سرخ رنگ میں دِِکھا کر اِسکی وابستگی جہنم کی آگ کے ساتھ ظاہر کی گئی اور یہی اِسکا معیاری رنگ بن گیا۔
اِسی عیسوی میں مسیحی اور یہودیوں کے ابتدائی ربیوں (Rabbis) نے اِنسانی زوال کی کہانی کوبھی نئی سنجھ بھُوج کیساتھ سمجھا۔ یہ وہ وقت تھا جب سانپ کی مکمل شناخت ابلیس کے بھیس میں ہوئی اور حوا نے عدن میں بنیادی گنہگار کے طور پر زیادہ اہمیت اختیار کی۔ عام خواتین میں غلط قِسم کے نسانی خیالات رکھنا اور حوا کا ابلیس کے ہاتھوں ورغلایا جانا عین مُمکن تھا اور پھر اس نے آدم کو بہکایا۔ ربیوں کی کتاب جینیسس ربہ (Genesis Rabbah) میں عورتوں کے پردہ کرنے کی وجہ اصل میں جوا کی جِِنسی شرم تھی اور دوسری وجہ یہ تھی کہ اُسنے آدم کو بہکایا۔ حیض کا آ جانا بھی اِنکے لئے ایک سزا تھی۔ دوسری صدی عیسوی کےٹرٹولین (Tertullian) جِنہیں کلیسا کا بانی سمجھا جاتا ہے، اُس کا کہنا یہ تھا کہ حوا کے ذریعے تمام عورتیں "Devil's gateway" یعنی شیطان کا داخلی راستہ تھیں اور حوا کی وجہ سے "خدا کے بیٹے کو بھی مرنا پڑا" حوالہ(On the Apparel of Women, I).
یورپ کی مذہبی روایات (Celts، Druidism، اور Teutons) نے کُچھ اور خصوصیات کا اضافہ کیا۔ مغربی علاقے جہاں سیلٹس (Celts) کی تہزیبیں تھیں وہاں سیرنونوس (Cernunnos)، پین (Pan) جیسا ایک سینگ والا دیوتا تھا، لوکی (نورس مائتھولیجی کعمُطابق انڈرورلڈ کے ھُکمران) کی بیٹی کا دوہرا کردار تھا ایک زمین کی زرخیزی دُوسرا عالمِ مُردار پر حکمرانی ۔ لفظ ہیل (Hell) اِسی لڑکی کے نام سے ہے۔
لُوسیفر اور اُسکے راکشوں میں چُونکہ جانوروں کی خصوصیات تھیں، اُن میں اپنا حُلیا بدلنے کی صلاحیت موجُود تھی۔اِس لئے یہ ضروری تھا کہ اُنکے حملہ سے بچا جائے۔ ایسی صُورت میں صلیب کا نشان بنانے سے، مُقدس پانی اور روٹی اور (Rosary) پڑھنے سے شیطان کو پیچھے دھکیلا جا سکتا ہے۔ (جرمن سکالر(Faust) کی کہانی اِس نُقطہ کے گِرد گھُومتی ہے کہ اِنسان کی رُوح کو دُنیا کی خُوشیوں، دانش اور دولت کے عِوض خریدا جا سکتا ہے) اور اسی کی بنیاد پر،خُوشحالی کے بدلے رُوح کا لُوسیفر کو بیچنے کے معائده کا تصور وجُود میں آیا۔ لهازا عقیدہ کے مطابق صِرف ماں مریم ہی اِس معائدہ کو توڑ سکتی تھی۔ اِس موقع پر بدرُوحوں کو نکالنے کا رواج نے جنم لیا جِسکی تعلیم اب بھی کُچھ کیتھولک پادریوں کودی جاتی ہے۔
دانتے شاعر نے شیطان کو جہنم کے سب سے نچلے حصے (برف، روشنی سے دور) میں چمگادڑ کے پر اور تین چہرے رکھنے والے عفریت (monster) کے طور پر دکھایا ہے۔ اِسکے مطابق شیطان ( تین قِسم کے آدمیوں کو) کھا جاتا ہے۔ یعنی (Brutus) نقلی کے معنی میں ، (Cassius,) ایسا قیمتی محلول جو سونے کو رنگدار بنانے میں استعمال ہوتا ہے اور بےشک یہودہ جیسے آدمی کو۔