چھٹی صدی قبل مسیح کے وسط سے لے کر آخری دور تک ایک سابق یونانی غلام کے قلم سے ایسے نادر جواہرات کے فوارے چھوٹے جن کی نظیر ملنا ناممکن ہے، حکایات لقمان اخلاقی اور سماجی کہانیوں کا دنیا کا سب سے مشہور مجموعہ ہے۔ یہ حکایات، جن کی تعداد ۷۲۵ ہے، در حقیقت ایک شخص سے دوسرے شخص تک ازراہ تفنن اور طبیعت کی تفریح کے لیے سنائی گئی تھیں لیکن زیادہ تر ان کا مقصد اخلاقی اطوار اور تہذیبی عادات کا انتقال تھا۔ یہ ابتدائی کہانیاں بنیادی طور پر تمثیلی اساطیر ہیں جو اکثر جانوروں یا حشرات کی تصویر کشی کرتی ہیں جیسے لومڑی، ٹڈے، مینڈک، بلیاں، کتے، چیونٹیاں، کیکڑے، ہرن، اور بندر جو کہ انسانوں کی نمائندگی کرنے والے انسانوں کی روز مرہ کے حالات میں مصروف دکھائی دیتے ہیں (اس روایت اور اسلوب کو نسمِیَت یا اینائمزم کہا جاتا ہے)۔ نتیجتاََ یہ حکایات انسانی زندگی کی قدیم ترین خصوصیات میں سے ایک کی نمائندگی کرتی ہیں اور وہ داستان گوئی اور حکایت نویسی ہے۔
نقطہ آغاز
حکایات کی ابتدا یونانیوں سے قبل کی گئی تھی۔ سمیری محاورے، جو عیسی ؑ سے تقریباً ۱۵۰۰ سال قبل لکھے گئے تھے، بھی اسی قسم کی خصوصیات اور ساخت پر مشتمل ہیں جو مابعد کی یونانی حکایات میں نمایاں ہوتی ہیں۔ سمیری کہاوتوں میں جانوروں کے کردارروں کو ایک اہم مقام تفویض کیا جاتا تھا اور اکثر روزمرہ کی زندگی کو احسن طریق پر گزارنے کے لیے چند ایک عملی مشوروں کا تذکرہ کیا ہوتا تھا ("فخر اور شیخی سے اجتناب کرو؛ پھر ہی کہیں تمہاری باتوں پر بھروسہ کیا جائے گا")۔ ابتدائی محاوروں اور بعد کے افسانوں اور حکایات، دونوں کی تحریر کا انداز سادہ اور سلیس تھا۔ ان دونوں میں دقیق اور گاڑھے الفاظ کا فقدان ہے۔۔ ان کہانیوں میں دوبارہ گننے والے حالات کسی نہ کسی قسم کے واقعے سے شروع ہوتے ہیں اور ایک حکمت آمیز فقرے پر ختم ہوتے ہیں جو کہانی کے اکثر مشہور و معروف اخلاق سبق کی بنیاد بنتا ہے۔ یہ بہت بعد کی بات ہے کہ مصنفین نے یا تو کہانی کے آغاز میں ان اخلاقی اسباق پر مشتمل سطروں اور فقروں کو بیان کرنا شروع کیا (تاکہ قارئین کو کہانی کا مقصد ابتدا میں بھی واضع کر دیا جائے) یا آخر میں شامل بیان کیا جاتا( تاکہ قارئین کو یہ بتایا جا سکے کہ درحقیقت اس کہانی اور حکایت کا مطمح نظر کیا تھا اور اس میں کیا اخلاقی سبق پوشیدہ اور پنہاں تھا)۔ بالآخر، ان حکایات کی اختراع مطلوب و مرغوب اور نامرغوب انسانی رویوں کو اجاگر کرنے کے لیے کی گئی تھی: یعنی یہ واضع کرنا کہ کس حالت میں کیا عمل کرنا چاہیے اور کس فعل سے اجتناب برتنا چاہیے
دسویں سے سولہویں صدی عیسوی کے درمیان یونانی زبان میں لکھی گئی یہ حکایات شاید اُن الفاظ اور اس اسلوب کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں لکھی گئی جس میں یہ ابتدائی ادوار میں لکھی یا کہی گئی تھیں۔ مرور ایام اور گردش لیل و نہار کے ساتھ اور بڑی حد تک ان حکایات کو محفلوں میں متواتر سنائے جانے کی بدولت حکایت نویس کے ذہن میں کارفرما مقصد سے مطابقت رکھنے کے لیے اور اس کی تصدیق کرنے کے لیے الفاظ کو تبدیل یا ختم کیا گیا ہوگا۔ ان تبدیلیوں اور تغیرات کے باوجود، ایک خاصیت جو کہ زیادہ تر حکایات میں مشترک ہے وہ ان حکایات میں جانوروں کے کردار ہیں۔ جانور انسانوں جیسی خصوصیات کو ظاہر کرتے ہیں، خاص طور پر بول چال اور رویے کی خاصیت اور وصف۔ درحقیقت، ان حکایات کی اختراع انسانی زندگی کی نقل اور چربہ تیار کرنے کے لیے کی گئی تھی۔ زیادہ تر کہانیاں اور حکایات کا مقصد انسان کے برے، مضر اور ناقص فیصلوں اور طرز عمل کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ جانوروں کو ایک سے زیادہ کہانیوں اور کرداروں میں ظاہر ہونے کی اجازت دینے کے لیے، لقمان نے جانوروں کو خود سے منسلک ایک خاص رویے اور طریق کار کے مطابق برتاؤ کرنے پر مجبور نہین کیا جیسا کہ چالاک لومڑی، سست کچھوا۔ یہ لچک دار خصوصیات جانوروں کو مختلف انداز میں کام کرنے والی دیگر ترتیبات میں ظاہر ہونے کی اجازت دیتی ہیں۔
مقصد
اکثر یونانی علم و فن کے میدان کا مرکز رہنے والی حکایات لقمان، جو کہک خاص طور پر بچوں کی تعلیم و تربیت اور تادیب کے ساتھ ساتھ آموزش خواندگی اور کتابت کے حوالے سے نے بہت سے اضافی مقاصد کو پورا کیا۔ سیاسی طور پر دیکھا جائے تو یہ حکایات یونانی تاریخ کے ایک ایسے دور میں ابھریں جب آمرانہ حکمرانی نے خطبا اور مقررین کے لیے آزادانہ اظہار رائے کو ناممکن بنا دیا تھا۔ یہ حکایات ایک ایسے ذریعہ کے طور پر اپنا کردار ادا کرتیں تھیں جس سے حکومت کے خلاف تنقید کا اظہار سزا کے خوف کے بغیر کیا جا سکتا تھا۔ درحقیقت، کہانیوں نے ایک ضابطے کے طور پر کام کیا جس کے ذریعے کمزور اور بے اختیار طبقے مضبوط اور طاقتور طبقوں کے خلاف بات کر سکتے تھے۔
مزید برآں، ان حکایات نے کمزور طبقہ جات کو یہ باور کروایا کہ ہوشیاری، عیاری اور بذلہ سنجی سے طاقتور طبقہ جات کے خلاف کامیاب ہوا جا سکتا ہے۔ کہانیوں کی تخریبی نوعیت نے یونانی معاشرے میں نچلے طبقے کو ایک ایسے معاشرے سے فرار کا ذریعہ بنایا جو اکثر "جس کی لاٹھی اس کی بھینس" کےخیال پر اپنی بنیادوں کو استوار کرتا تھا۔ افسانوں کو تقریروں اور خطابوں میں ایک قیمتی اور اہم ذریعہ بھی تصور کیا جاتا تھا خاص طور پر دوسروں کو کسی خاص نکتے کے بارے میں قائل کرنے کے لیے۔ ارسطو نے اپنی ریتوریکا (بیان بازی) میں یہ دلیل دی کہ کسی کی بات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی صورت میں کہ ایک افسانہ یا حکایت بھی کسی کی دلیل کی حمایت کر سکتا ہے۔
یہ حکایات بچوں کی تفریح کی ایک شکل کے طور پر ایک سادہ تدریسی آلے کے طور پر اپنا کردار ادا کرتی تھیں۔ ان حکایات اور کہانیوں نے"بچپن کی دنیا اور دور طفولیت" کو بھی بیان کرتے ہوئے زندگی کے اہم اسباق کو منتقل کیا۔ بنیادی کردار اکثر بچوں کی طرح کام کرتے ہیں۔ کہانیوں نے جوانی کے مصائب اور شدار کو اس انداز میں بیان کیا کہ نوجوان قارئین کو کم عمری میں ہی جوانی کے کرداروں اور اخلاقیات کے ساتھ ایک رابطہ استوار کرنے کا موقع ملتا ہے۔
ان حکایات نے دروں بینی اور مشاہدہ نفس کا ایک موقع بھی فراہم کیا۔ ان لمحات میں جب یونانیوں کو شک تھا کہ ان کی ثقافت یا تہذیب توقعات پر پورا نہیں اتر رہی ہے، ان حکایات اور کہانیوں نے ایک حد تک ذاتی عکاسی کا ایک ذریعہ فراہم کیا۔ اگرچہ انسان اور جانور ایک جیسے خصلتوں کا اشتراک کرتے ہیں، انسان اپنی عقل کی طاقت کی وجہ سے ان سے ممتاز ہیں جو انسانوں کو زندگی اور بودوباش کے متعلق مختلف اور متنوع قسم کے فیصلے کرنے کی قوت اور اہلیت بخشتی ہے
حکایات لقمان کی چند مثالیں
افعی و شہباز
ایک عقاب/شہباز ایک سانپ/افعی پر جھپٹا اور اسے دور لے جا کر لطف لے کر نگلنے کے ارادے کو اپنے ذہن میں جگہ دیے اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔ لیکن سانپ پھر سانپ تھا، اس سے بہت زیادہ شاطر اور چطُر، اور ایک ہی لمحے میں اُس کے گرد ایک لچھا بنا لیا۔ اور پھر دونوں کے مابین زندگی اور موت کی کشمکش شروع ہو گئی۔ ایک دیسی باشندہ، جو اس تصادم کا عینی شاہد تھا، عقاب کی مدد کو لپٹا ، اور اسے سانپ سے چھڑوانے اور فرار کروانے میں کامیاب ہوگیا۔ یہ دیکھتے ہوئے سانپ میاں آگ بگولہ ہو گئے اور بدلے کے طور پر اپنا کچھ زہر اس شخص کے پیالے میں تھوک دیا۔ اپنی مشقت سے انجام دیے گئے کارنامے سے چور اور نڈھال ہو کر وہ بہادر مگر سادہ لوح شخص اپنی پیاس بجھانے ہی والا تھا کہ یکایک پیالے کو عقاب نے پنجے کی ضرب سے گرا دیا اور اس میں موجود زہر زمین برد ہو گیا۔ ۔
نتیجہ: کر بھلا سو ہو بھلا
سمند و سائیس
ایک سائیس (گھوڑوں کی دیکھ بھال پر مققر شخص) سارا دن اپنی قوت کو اپنے گھوڑے کو کو کھرکنے، اس کے بالوں کو مہین کرنے، اور اس کی زیبائش پر صرف کرتا تھا، لیکن ساتھ ہی اس کی خوراک کے جو کے دانوں کو چرا کر اپنے ذاتی فائدے کے لیے بیچ دیتے تھے۔ "افسوس صد افسوس!" گھوڑے نے کہا، "اگر تم واقعی چاہتے ہیں کہ میں اچھی حالت میں رہوں، تو میری آرائش پر کم اور اناج پر زیادہ سر دھنیے
نتیجہ: ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی
ٹڈا اور چیونٹی
موسم گرما کے ایک آتشیں دن جھلسا دینی والی گرمی میں دن ایک ہرے بھرے کھیت میں پکی ہوئی فصل کے لہلہاتے پودوں میں ایک ٹڈّا اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر پھدک رہا تھا، مست ہواؤں یں چہچہا رہا تھا اور گزرے دنوں کی یاد میں مدھر آواز میں نغمگی سے گنگنا رہا تھا۔ اسی اثنا میں پاس سے ایک چیونٹی کا گزر ہوا، جو کہ اچھی خاصی محنت اور مشقت کے ساتھ مکئی کے ایک خوشے کو لے کر گھونسلے کی طرف گامزن تھی۔
"بجائے اس کے کہ تم اتنی جاں فشانی سے اس کٹھن کام میں ملوث ہوں، کیوں نہ ہم کچھ گپ شپ کریں،" ٹڈے نے چیونٹی کو رائے دی
بی چیونٹی نے جواب دیا، "میں سردیوں کے لیے کھانا جمع کرنے میں مصروف ہوں، اور آپ کو بھی ایسا کرنے کی ہدایت کرتا ہوں۔"
"سردیوں کی فکر کاہے کی؟" ٹڈے نے حیرت سے پوچھا؛ ہمارے پاس اس وقت کافی خوراک موجود ہے۔" لیکن چیونٹی ٹڈے کی باتوں پر کان نہ دھرتے ہوئے اپنے راستے پر چلتی رہی اور اپنی محنت جاری رکھی۔ جب موسم سرما کا نزول ہوا تو جناب ٹڈے کے پاس کھانے کو بھوسہ تک نہ تھا۔ اور وہ بھوک سے بلک بلک کر بستر مرگ پر تھا، جب کہ اس نے چیونٹیوں کو دیکھا کہ وہ روزانہ گرمیوں میں جمع کیے گئے مکئی اور اناج کے ذخائر سے اسے تقسیم کرتے ہیں۔ تب جا کر ٹڈے کو اندازہ ہوا کہ اب پانی سر پر سے گزر چکا ہے
نیتجہ: پاؤں پھیلا کر سونے سے بہتر ہے تیاری کرنا